کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 15
کو بصیرت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے دین کو مکمل کیا اور اپنی نعمت کوپورا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس دنیا اس وقت تک نہیں اٹھایا جب تک کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوگئے۔ اور لوگ اسلام کی نعمت سے سرفراز ہوئے ؛ اور توحید کے جھنڈے تلے امن و استقرار کی نعمت سے بہرہ ور ہونے لگے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے تو تمام امور کی زمام کار ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئی۔ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اس امر کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔آپ ان میں سب سے بڑھ کر علم والے، حلیم مزاج، حکیم و دانا تھے۔ اورآپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے امور کے متحمل ہونے میں سب سے زیادہ قوی تھے۔ آنکھوں سے شبہ زائل ہوتا اور دلوں سے گمراہی ختم ہوتی ہے ؛ کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میں اختلاف کرنے لگے ؛ یہاں تک کہ کبار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ان میں سر فہرست حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں، کو اس حادثہ نے دیوانہ کردیا اور ان پر یہ واقعہ بہت ہی گراں گزرا۔ابتدامیں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی تصدیق نہیں کی۔اگر اللہ تعالیٰ کی عنایت اور مہربانی کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دخل اندازی (جس سے یہ فتنہ ختم ہوا) نہ ہوتی تو قریب تھا کہ فتنہ برپا ہوجاتا۔آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں کھڑے ہوئے خطبہ دینے لگے جب کہ یہ ایک بہت ہی نازک اور دشوار موقع تھا۔آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمانے لگے : ’’آگاہ ہوجائیے ! تم میں سے جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں اور جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا، توبے شک اللہ تعالیٰ زندہ ہے، اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ اور پھر آپ نے یاد دہانی کے لیے یہ آیت پڑھی : ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی أَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئاً وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشَّاکِرِیْنَ﴾(آل عمران ۱۴۴) ’’اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو صرف (اللہ کے) پیغمبر ہیں اُن سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہو گزرے ہیں، بھلا اگر یہ فوت ہو جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ (یعنی مرتد ہو جاؤ) گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا تو اللہ تعالیٰ کا کچھ نقصان نہیں کر سکے گا اور اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو (بڑا) ثواب دے گا۔ ‘‘[1] حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’اللہ کی قسم ! گویا لوگوں نے اس آیت کے نازل ہونے کو جانا ہی نہیں تھا، یہاں تک کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس دن اسے تلاوت کیا …‘‘[2]
[1] امام بخاری نے یہ حدیث اپنی صحیح میں روایت کی ہے۔ کتاب فضائل الصحابۃ باب قول النبی صلي الله عليه وسلم :لو کنت متخذاً خلیلاً ح ۳۶۶۸؛ فتح الباری ۷/۱۹۔ [2] ابن ہشام : السیرۃ النبویۃ ۴/۱۵۱۴۔