کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 146
اور ایسے محمد بن مسلمہ سے روایت کیا گیا ہے ؛ کہا :
’’ میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے کہا : سلمہ بن کہیل حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بہت سی چیزیں روایت کرتاہے۔ انہوں نے کہا : اوروہ کیا کہتا ہے ؟ میں نے کہا: اس نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ وہ ایک دن حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ خلوت میں چلے گئے۔ آپ کے صحابہ میں سے ایک آدمی نے کہا : ’’ عجیب بات ہے کہ ہم اتنی سختی میں ہیں، اور آپ آج بھی اس نوجوان سے سر گوشیاں کررہے ہیں۔ (یہ سن کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس سے سرگوشی نہیں کررہا تھا، بے شک رب سے سر گوشیاں کررہا تھا۔ تو ابو عبد اللہ نے کہا : ’’ یہ بات تو آپس میں ایک دوسرے سے معروف ہیں۔ ‘‘[1]
اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سرگوشی کی طائف کے دن؛ عقبہ کے دن؛ تبوک اور خیبر کے دن۔ ‘‘[2]
یہ روایات ان کے اس عقیدہ پر دلالت کرتی ہیں کہ : ’’ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی سے سر گوشی کی۔ ‘‘ یہ اللہ تعالیٰ پر ایک کھلم کھلا اور واضح جھوٹ ہے، جس پر اللہ تعالیٰ ان سے بدلہ لے گا۔
۳۔ اوصیاء پر وحی نازل ہونے کا عقیدہ :
گزشتہ بحث میں ہم ان ( شیعہ و روافض )کا یہ اعتقاد بیان کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سر گوشی کی۔ ان کے گمان کے مطابق یہ ایک ایسی فضیلت ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خاص کر لیا تھا ؛ اوصیاء میں سے کسی کو یہ مقام نصیب نہیں ہوا۔ یہ (سرگوشی ) وحی سے ہٹ کر ایک چیز ہے۔ جب کہ وحی کے بارے میں وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام اوصیاء کی طرف وحی نازل ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی اور تائید کے لیے فرشتوں کو نازل کرتے ہیں۔ ’’بصائر الدرجات‘‘ میں آیاہے :
’’ ابو جعفر، باقر علیہ السلام سے روایت کیا گیا ہے ؛ آپ نے فرمایا: ’’ بے شک اوصیاء الہامی باتیں کرنے والے ہوتے ہیں۔ جن کی طرف روح القدس الہام کرتا ہے، مگروہ اسے دیکھ نہیں سکتے۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے روح القدس پیش ہوتے تھے؛ جن سے آپ سوال کیاکرتے۔ تو آپ کو اپنے دل میں احساس ہوتا کہ انہوں نے درست جواب پالیا ہے، تو پھر آپ ( لوگوں کو ) اس کی خبر دیتے، تو ایسے ہی ہوتا جیسے آپ
[1] اصل الشیعۃ و فروعہا (ص ۲۸)۔
[2] عقائد الإمامیۃ (ص : ۱۰۳)۔
[3] أصل الشیعۃ و أصولہا ص: ۶۵۔
[4] الاختصاص (ص : ۳۲۷)۔