کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 145
اور محمد بن محمد الموسوی الکاظمی القزوینی (بڑے معاصر شیعہ علماء میں سے ایک ہے) اپنی کتاب ’’أصل الشیعۃ و فروعہا ‘‘ میں کہتا ہے : ’’ شیعہ اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امامت واجب ہے، تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دین کے امور ضائع نہ ہوں۔ اور اس بات کا بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ امامت بھی نبوت کی طرح ایک منصب الٰہی ہے۔ بس (فرق صرف اتنا ہے کہ ) نبی کی طرف وحی ہوتی ہے ؛ اور امام کی طرف وحی نہیں آتی اور یہ بھی کہتے ہیں کہ : ’’ جیسے اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بندوں میں سے اپنی نبوت کے لیے چن لیتا ہے، اور اس کی دعوت کی تصدیق کے لیے معجزات سے اس کی تائید کرتا ہے ؛ ایسے ہی جسے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے امامت کے لیے چن لیتا ہے اور اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے بعد لوگوں کے لیے وصی کومقرر کردیں۔‘‘[1] اور مظفر ( ایک معا صر عالم ) اپنا عقیدہ بیان کرنے کے بعد کہتا ہے : ’’ اس بنیاد پر امامت نبوت کا استمرار ہے؛ اور وہ دلیل جو انبیاء اور مرسلین کے مبعوث ہونے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے ؛ وہی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امام نصب کرنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ : ’’ امامت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کی زبانی یا اس سے پہلے کے امام کی زبانی منصوص ہونے پر ہی ثابت ہوسکتی ہے؛ یہ لوگوں کے اختیار یا چن لینے سے نہیں ہوتی۔ ‘‘[2] کاشف الغطاء رافضیہ کے نزدیک امامت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : ’’ بے شک امامت سے ان کی مراد اس کا الٰہی منصب ہونا ہے ؛ جسے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے اپنے سابق علم کی بنیاد پر اختیار کرتے ہیں جیسا کہ نبی کو اختیار کیا جاتا ہے اور اللہ نبی کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اپنی امت کو اس امام کے بارے میں بتائیں اور اس کی اتباع کا حکم دیں۔ اور وہ اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا تھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بعد لوگوں کے لیے امام مقرر کریں۔ ‘‘[3] ۲۔ اللہ تعالیٰ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سر گوشی کا عقیدہ : شیخ مفید حمران بن اعین سے روایت کرتا ہے، (انہوں نے ) کہا : ’’ میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے کہا :’’ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی علیہ السلام سے سر گوشی کی ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ؛ ان دونوں کے درمیان سر گوشی طائف میں ہوئی ہے، اور ان کے درمیان جبرئیل بھی نازل ہوئے تھے۔‘‘[4]
[1] عقائد الإمامیہ ص ۱۰۲۔ [2] بصائر الدرجات : الصفار ۹۹۔ [3] أمالی : للصدوق (ص ۱۰۸)۔