کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 140
ایک دوسری نص میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یوشع بن نون کو وصی مقرر کرنا چاہا تو اس کے لیے ان سے براہ راست کلام کیا۔ (نص یوں وارد ہوئی ہے ):
’’ موسیٰ کے رب نے کہا : تمہارے دن قریب آچکے ہیں کہ مر جاؤگے۔ (لہٰذا) یوشع بن نون کو اجتماع والے خیمہ میں بلاؤ تاکہ میں اسے وصی مقرر کروں۔‘‘
سو موسیٰ اور یوشع دونوں چل پڑے اور خیمہ میں جاکر کھڑے ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خیمے کے ایک ستون میں بادل دکھائے۔ بادلو ں کا یہ ستون خیمہ کے دروازہ پر رک گیا۔ اور رب نے موسی علیہ السلام سے کہا : ’’ہاں اب تم اپنے آباء کے ساتھ سونے والے ہو؛ میں یوشع بن نون کو وصی مقرر کرتا ہوں۔ اور فرمایا کہ : ’’ اپنی کمر کس لو؛ اس لیے کہ آپ ہی بنی اسرائیل کو لے کر اس سر زمین میں داخل ہوں گے جو میں نے ان کے لیے تقسیم کردی ہے اور میں تمہارے ساتھ ہوں گا۔‘‘[1]
یہ نص اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یوشع بن نون کو وصی مقرر کرنے والا خو د اللہ تعالیٰ ہے۔ موسی علیہ السلام نہیں ہیں، بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے براہ ِ راست یوشع بن نون کو مخاطب کیا ہے۔
سفر یشوع میں بھی ایسی عبارات ہیں، جو اس کی تائید کرتی ہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یوشع بن نون سے حضرت موسی علیہ السلام کی موت کے بعد خطاب کیا تھا۔ (روایت میں ہے):
’’ موسیٰ علیہ السلام کی موت کے بعد جو کہ رب کا بندہ تھا ؛ اللہ تعالیٰ نے ان کے خادم یوشع بن نون سے خطاب کیا؛ اور فرمایا: ’’ میرا بندہ موسیٰ انتقال کر گیا ہے ؛ اب تم کھڑے ہوجاؤ اور اس اردن کو عبور کرو۔‘‘[2]
سو اللہ تعالیٰ کا موسیٰ علیہ السلام کے وصی یوشع بن نون سے ہم کلام ہونا اور خطاب کرنا ہمارے لیے اس عظیم منزلت کو واضح کرتا ہے جو یہودی اسفار میں وصی کو دی گئی ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا ایک ایسی عظیم منزلت ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان اہل ِ عصر لوگوں میں سے صرف حضرت ِ موسی علیہ السلام کو خاص کیا تھا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿قَالَ یَا مُوسَی إِنِّیْ اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسَالاَتِیْ وَبِکَلاَمِیْ فَخُذْ مَا آتَیْتُکَ وَکُنْ مِّنَ الشَّاکِرِیْنَ﴾ (الاعراف:۱۴۴)
’’ (اللہ نے) فرمایا کہ موسیٰ! میں نے تمہیں اپنے پیغام اور اپنے کلام کے لیے لوگوں میں سے چن لیا ہے تو جو میں نے تمہیں عطا کیا ہے اُسے پکڑ رکھو اور (میرا) شکر بجا لاؤ۔‘‘
حضرت یوشع بن نون کی یہودیوں کے ہاں عظیم منزلت پر جو چیز دلالت کرتی ہے وہ ان کے اسفار میں وارد ہونے والی روایات ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے ہاتھ پر بیت المقدس [فلسطین ] کو فتح کیا جائے گا، اور
[1] الاصحاح ۲۷ ؛ فقرات (۱۵- ۲۳)۔