کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 139
پہلی بحث : …یہود کے ہاں وصیت
یہودیوں کا خیال ہے کہ نبی کے بعد ایک وصی ہونا چاہیے جو اس کی جگہ لے، اور اس کے بعد وعظ و ارشاد کا کام کرے۔ تورات اور دوسری کتابوں (یہودی اسفار ) میں اس بارے میں کئی ایک نصوص وارد ہوئی ہیں ؛ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے طلب کیا تھا کہ وہ اپنے بعد یوشع بن نون علیہ السلام کو اپنا وصی مقرر کریں تاکہ وہ ان کے بعد بنی اسرائیل کے مرشد اور رہنما بنیں۔ سفرعدد (گنتی کا سفر ) میں یوں آیا ہے :
’’رب نے موسیٰ علیہ السلام سے یہ کہتے ہوئے کلام کیا ؛ تمام بشر کی روحوں کے رب کو چاہیے کہ وہ ایسے آدمی کو وکیل بنائے جوایک جماعت پر بڑا ہو۔ جن کے سامنے وہ داخل ہو،اور ان کے سامنے خارج ہو۔اور نہیں نکالے اور داخل کرے تاکہ جماعت کا رب ان بھیڑوں کی طرح نہ ہوجائے جن کا کوئی چرواہا ہی نہیں۔
تو رب نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا : ’’ یوشع بن نون کو لیجیے، وہ ایسا آدمی ہے، جس میں روح ہے۔ اور اپنا ہاتھ اس پر رکھیے ؛ اور اسے کاہن عازار اور تمام لوگوں کے سامنے کھڑا کریں ؛ اور ان سب لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ان کواپنا وصی بنائیں۔ تو موسیٰ علیہ السلام نے ایسے ہی کیا، جیسے رب نے حکم دیا تھا۔ انہوں نے یوشع بن نون کو اپنے ساتھ لیا، اور انہیں عازار کاہن، اور تمام لوگوں کے سامنے کھڑا کیا اور اپنا ہاتھ ان پر رکھا ؛ اور انہیں ویسے ہی وصیت کی جیسا کہ رب تعالیٰ نے انہیں وصیت کرنے کا کہا تھا۔‘‘[1]
یہ عبارت واضح طور پر حضرت موسی علیہ السلام کے بعد وصی مقرر کرنے کی ضرورت کی تاکید کرتی ہے۔ اس کی مزید وضاحت مندرجہ ذیل تین چیزوں سے بخوبی معلوم ہوسکتی ہے:
ا ول:… اللہ تعالیٰ کا موسی علیہ السلام کی موت سے قبل وصی متعین کرنے کی طلب۔
دوم:… جو بات اس منصب کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار موسیٰ علیہ السلام کو نہیں دیا، اورنہ ہی بنی اسرائیل کو کہ وہ اپنے لیے وصی کو منتخب کریں بلکہ خود اس کے بارے میں تعین کیا، اور اس کا نام لیا، اوروہ ہیں : یوشع بن نون۔
سوم:… اللہ تعالیٰ کا اس قوم کو جس میں وصی نہ ہوان بکریوں سے تشبیہ دینا جن کا کوئی چرواہا یا نگہبان نہ ہو۔ یہ وصی مقرر کرنے کے وجوب پر دلالت کرتا ہے۔