کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 135
طرف حج کے لیے دور دراز سے ایسے آتے ہیں، جیسے مسلمان بیت اللہ کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔
۴۹۔ اور یہ کہ یہود اپنے علماء اور درویشوں کی شان میں اتنا غلو کرتے ہیں کہ عبادت کی حد تک پہنچ جاتے ہیں ؛ اور انہیں الہ (معبود ) بنالیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اتَّخَذُوْا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ﴾ (التوبہ: ۳۱)
’’ انہوں نے اپنے علماء، مشائخ کو اللہ کے سوا معبود بنا لیا۔‘‘
ایسے ہی رافضہ بھی اپنے ائمہ کی شان میں غلو کرتے ہوئے انہیں معبود بنالیتے ہیں، اور ان کی عبادت کرتے ہیں۔ اور ان کی اتنی تقدیس کرتے ہیں کہ انہیں بشریت اور مخلوق کے مرتبہ سے اوپر کا مقام دیتے ہیں۔
۵۰۔ اور یہ کہ یہود اور ان کے علاوہ نصاریٰ وغیرہ کے پاس ان کے دین اور ماثورات (دینی روایات) جنہیں وہ اپنے انبیاء کرام سے بیان کرتے ہیں ؛کی نہ ہی کوئی صحیح سند ہے اور نہ ہی ضعیف۔ اور نہ ہی جن لوگوں سے روایات نقل کرتے ہیں ان کے حالات زند گی کی کوئی صحیح اورمستند کتاب ہے جس کی سند متصل ہو، جس سے دینی روایات کے راویوں کی علمی اور اخلاقی حالت معلو م ہو سکے۔ ایسے ہی رافضہ کے عقائد اور مفردات ؛ جن کی بناپر وہ اہل ِ سنت و الجماعت سے علیحدہ ہوئے، اور ان ( عقائد) کو اپنے لیے خاص کر لیا؛ یہاں تک کہ باقی تمام فرقوں سے علیحدہ اور مستقل فرقہ بن گئے ؛ نہ ہی اس کی کوئی صحیح سند ہے، اور نہ ہی متصل اور مقبول روایت۔ نہ ہی ان روایات کے نقل کرنے والے راویوں (جن سے یہ خصائص اور مفردات نقل کی جارہی ہیں ) کے حالات ِ زندگی پر کوئی مستند کتاب ہے، جس سے ان کا علمی مرتبہ اور دینی اور اخلاقی حالت معلوم ہوسکے۔
۵۱۔ ایک مشابہت یہ ہے کہ یہود تقیہ کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ حق بات کو چھپاتے اور باطل کی موافقت کرتے ہیں۔ رافضی بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں ؛ اور اس میں حد سے گزر جاتے ہیں اور تقیہ کے بارے میں ان کے ہاں عجیب و غریب قسم کی روایات ہیں۔ ‘‘[1]
معاصر علماء میں جن لوگوں نے یہودی رافضی مشابہت ذکر کی ہے، ان میں شیخ عبد الوہاب خلیل الرحمن نے ابو حامد الطوسی کی کتاب ’’الرد علی الرافضہ ‘‘ کے مقدمہ میں رافضیوں کی یہود سے مشابہات کی بعض وجوہات ذکر کی ہیں اور اس میں انہوں قصیمی کی روایات پر اعتماد کیا ہے۔[2]
علمائے کرام نے یہود اور روافض میں مشابہت کی جو وجوہات ذکر کی ہیں، ان کی تائید میں رافضہ کے بعض وہ عقائد ذکر کروں گا جن میں وہ یہودیوں سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔ اور اس کے لیے میں ان میں ہر ایک کا عقیدہ ان
[1] راوہ البخاری فی کتاب الجنائز؛باب : ما یکرہ من اتخاذ المساجد علی القبور