کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 129
۱۵۔ یہود نماز فجر میں (مٹی یا لکڑ کی بنی ہوئی )ٹکیا پر سجدہ کرتے ہیں اور رافضہ بھی ایسے ہی کرتے ہیں۔
۱۶۔ یہود خالص سلام نہیں کرتے بلکہ وہ کہتے ہیں : ’’ السام علیکم ‘‘ یعنی تم پر موت ہو۔ رافضہ بھی ایسے ہی کرتے ہیں۔ یہودیوں نے تورات میں تحریف کی؛ رافضیوں نے قرآن میں تحریف کی۔ یہودی جبرئیل علیہ السلام سے دشمنی رکھتے ہیں ؛ ایسے ہی رافضی بھی کہتے ہیں کہ جبرئیل نے وحی اتارنے میں غلطی کی۔
۱۷۔ یہودی لوگوں کا مال حلال سمجھتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے بارے میں خبر دی ہے ؛ فرمایا:
﴿ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْأُمِّیِّیْنَ سَبِیْلٌ﴾ (آل عمران:۷۵)
’’یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ امیوں کے بارے میں ہم سے مواخذہ نہیں ہو گا۔‘‘
ایسے رافضی بھی ہر مسلمان کا مال حلال سمجھتے ہیں۔
۱۸۔ یہودی لوگوں کو دھوکا دینا حلال سمجھتے ہیں۔ ایسے ہی رافضی بھی کرتے ہیں۔ یہودی تین طلاق کی کوئی اہمیت نہیں سمجھتے ؛ بس ہر حیض پر ایک طلاق شمار کرتے ہیں۔ ایسے ہی رافضی بھی کرتے ہیں۔
۱۹۔ یہودی عورتوں کے مہرکا نظریہ نہیں رکھتے؛ بلکہ وہ اپنی عورتوں سے متعہ ہی کرتے ہیں۔ رافضی بھی ایسے ہی متعہ کو حلال سمجھتے ہیں۔
۲۰۔ یہودی باندیوں سے عزل کا عقیدہ نہیں رکھتے۔ رافضہ کا بھی یہی عقیدہ ہے۔
۲۱۔ یہود ’’جری ‘‘ اور’’ مرماہی‘‘( مچھلی کی قسم) کو حرام سمجھتے ہیں۔ ایسے ہی رافضہ بھی سمجھتے ہیں۔
۲۲۔ یہودیوں نے خر گوش کواور ’’تِلی ‘‘کو حرام قرار دیا ؛ رافضہ نے بھی ایسے ہی کیا۔
۲۳۔ یہودی موزوں پر مسح کرنا جائز نہیں سمجھتے۔ رافضہ بھی ایسے ہی نظریہ رکھتے ہیں۔
۲۴۔ یہود قبر میں لحد نہیں بناتے۔رافضی بھی ایسے ہی کرتے ہیں جب کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لحد بنائی گئی تھی۔
۲۵۔ یہودی اپنے مردوں کو ( قبر میں ) تازہ گیلی مٹی میں رکھتے ہیں، ایسے ہی رافضہ بھی کرتے ہیں۔
پھر انہوں نے مجھ سے کہا :
’’ اے مالک ! یہودو نصاریٰ کو رافضیوں پر دو وجہ سے فضیلت حاصل ہے۔ یہودیوں سے پوچھا گیا : تمہاری ملت کے سب سے بہترین لوگ کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : ’’ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی۔ ‘‘ اور عیسائیوں سے پوچھا گیا : تمہاری ملت کے سب سے بہترین لوگ کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : ’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھی۔ ‘‘ رافضیوں سے پوچھا گیا : ’’تمہاری ملت کے سب سے بدترین لوگ کون ہیں ؟‘‘ تو انہوں نے کہا : ’’ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ‘‘اس سے مراد طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کو لیتے ہیں۔
[1] رواہ أبو داؤد فی کتاب الصلاۃ ‘ باب : وقت المغرب (۱/۲۹۱)؛ اس میں ’’ یہودیوں سے برابری کا ذکر نہیں۔ اورابن ماجہ نے اسے کتاب الصلاۃ ‘ باب : وقت المغرب (۱/ ۲۲۵) میں ذکر کیا ہے۔اور اسے امام حاکم نے بھی روایت کیاہے ؛ اور کہا ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ کی شرائط کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے۔ امام ذہبی نے بھی اسے صحیح کہا ہے (۱/۱۹۱)۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’صحیح ابن ماجہ (۱/ ۱۱۴) میں ‘ اور مشکاۃ(۱/ ۱۹۳) میں صحیح کہا ہے۔
[2] میں نے یہ حدیث تلاش کی‘مگر نہیں مل سکی۔محقق محمد رشاد سالم کا کہنا ہے کہ یہ حدیث نہیں مل سکی، البتہ اس مفہوم میں احادیث وارد ہوئی ہیں۔ سنن ابی داؤد ‘ کتاب الصلاۃ باب : ماجاء في السدل في الصلاۃ ؛ عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰه عنہ ‘أن النبی صلي الله عليه وسلم : نہی عن السدل في الصلاۃ؛ و أن یغطي الرجل فاہ۔‘‘ ’’ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کپڑا لٹکانے سے اور منہ کو ڈھانکنے سے منع کیا‘‘۔ حاشیہ منہاج السنۃ ۱/ ۳۱۔