کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 121
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہی بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہنے لگا۔ یہی وہ پہلا انسان ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے فرض ہونے کا عقیدہ ایجاد کیا۔اور ان کے دشمنوں سے براء ت کا اظہار کیا۔ اور ان کے مخالفین کا پردہ چاک کیا، اور انہیں کافر قراردیا۔ سواس بنیاد پر شیعہ کے مخالفین کہتے ہیں کہ :’’ شیعیت اور رافضیت کی اصل یہودیت سے ماخوذ ہے۔ ‘‘[1] یہ عبارت رافضی علماء کے ہاں مشہور ہے، جسے ان کے علماء نقل کرتے چلے آئے ہیں۔ ان کی معتمد اور ثقہ کتابوں میں سے کئی ایک میں اس کا ذکر آیا ہے۔ (شیعہ عالم) اشعری قمی نے ’’ المقالات و الفرق ‘‘[2]میں ذکر کیا ہے، اور نو بختی نے ’’فرق الشیعۃ‘‘[3] میں ذکر کیا ہے، اور مامقانی نے ’’ تنقیح المقال ‘‘[4]میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔‘‘ رافضیوں کے بڑے علماء اور مؤرخین ابن سباء کا یہودی ہونا تسلیم کرتے ہیں۔ اور یہ بات مانتے ہیں کہ جب تک وہ یہودی تھا حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے وصیِ موسیٰ علیہ السلام ہونے کا کہا کرتا تھا۔ اور اپنے اسلام کے اظہار کے زمانیمیں یہی بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہنے لگاکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں۔ اور یہی وہ پہلاشخص ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امام ہونے کا نعرہ بلند کیا اور ان کے مخالفین سے براء ت کا اظہارکیا۔ پھروہ اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ :’’ اسی وجہ سے رافضیت کو یہودیت کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔‘‘ رافضیوں کے بڑے بڑے علماء نے جس بات کا اعتراف کیا ہے، ہم اسے یہاں پر درج کررہے ہیں۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رافضیت یہودیت سے ماخوذ ہے۔ یہ حقیقت ہر رافضی کو ماننا پڑے گی۔خصوصاً ان معاصر رافضی علماء کو جو اس میں شک کررہے ہیں اوروہ لوگ جو نئے قلم کاروں کی باتوں سے متاثر ہیں۔ جس طرح کہ اہل سنت اور اہل تشیع کی کتب سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ رافضیت کی اصل عبد اللہ بن سبا (یہودی)کے توسط سے یہودیت سے ماخوذ ہے۔ ایسے ہی مستشرقین کی کتابیں بھی اس بات کی گواہی دیتی ہیں۔ چنانچہ جرمن مستشرق گیلیس فل ہاوزن کہتا ہے : سبائیت کی ایجاد کا زمانہ حضرت علی اور حضرت حسن ( رضی اللہ عنہما ) کا زمانہ ہے اور جیسا کہ اس کے اچھنبے نام سے ظاہر ہے۔ سو بے شک یہ آدمی یمنی تھا، وہاں کے دار الحکومت صنعاء سے تعلق رکھتا تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ : وہ یہودی تھا۔ یہی اس قول کی اصل ہے کہ ’’ فرقۂ سبائیہ کی بنیاد یہودی نے رکھی ہے۔ ‘‘ اور مسلمان ہر اس انسان پر یہودی کا اطلاق کرتے ہیں جوحقیقت میں یہودی نہ بھی ہو۔اور یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شیعہ مذہب جو کہ عبد اللہ بن سبا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے،
[1] زردشت : ایک فارسی مذہب ہے۔ جو زردشت بن یوشب کی طرف منسوب ہے۔ زردشت آذربائجان میں ۶۶۰ قبل میلاد پیدا ہوئے۔ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ نور اور ظلمت دو متضاد اصل ہیں۔ اور یہی دونوں عالم کی ایجاد کے لیے ایک مبداء ہیں۔ ان کے آپس میں ملنے سے یہ ترکیب ظہور پذیر ہوئی۔ اور یہ صورتیں مختلف ترکیبوں کے نتیجہ میں سامنے آئیں۔ اور باری تعالیٰ نور اوررظلمت کا پیدا کرنے والا ہے۔ دیکھو: الملل و النحل شہرستانی (۱/۲۳۷)؛ د؍ علی عبدالواحد الوافی : الأسفار المقدسۃ في الأدیان السابقۃ (ص: ۱۵۰)۔ [2] فجر الإسلام (ص: ۲۷۶-۲۷۷)۔ [3] الشیعۃ والسنۃ (ص: ۲۹)۔