کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 117
۵۔ ڈاویٹ ایم۔ رونلڈسن : یہ مستشرق شیعہ فرقہ کی ایجاد میں عبد اللہ بن سبا کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے : ’’اس بات پر انتہائی پرانی روایات دلالت کرتی ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دعویٰ، ان کے ساتھیوں اور ان کے شیعہ کا فقط ایک سیاسی مقاصد پر مشتمل نقطہ نظرہی نہیں تھا، بلکہ یہ ان کے لیے حق ِ الٰہی تھا۔ یہ اسلامی تاریخ کی طرف منسوب ید ِطولیٰ رکھنے والی ایک خفیہ شخصیت کی تعلیمات اور اس کی دسیسہ کاریوں کا نتیجہ (اس دعوت کا) ظہور و انتشار تھا۔‘‘ اور وہ کہتا ہے: ’’ عثمان کے زمانہ میں ایک گھومنے پھرنے والا داعی ظاہر ہوا ؛ جس کا نام عبد اللہ بن سبا تھا ؛ اس نے بلاد ِ اسلامیہ کے طول وعرض کے سفر کاٹے؛ وہ مسلمانوں میں فساد پیدا کرنا چاہتا تھا؛ جیسا کہ طبری نے کہا ہے۔ ‘‘[1] یہ قدیم اہل سنت و شیعہ محدثین، و محققین علماء کے اقوال ہیں ؛ اور مستشرقین کے اقوال ہیں، جو ان کی تائید کرتے ہیں ؛ اور ابن سبا کے وجود کی حقیقت کو ثابت کرتے ہیں۔ اور فرقۂ سبائیت کی تاسیس میں اس کا کردار بیان کرتے ہیں۔ علماء کی ان منقولات اور شہادات کے بعد کسی ایک کے لیے وجود ِ ابن ِ سبا کے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس لیے کہ عاقل اس بات کا تصور نہیں کرسکتا کہ یہ علماء ؛زمانے اور اوقات کے اختلاف کے باوجود؛ اور ملکوں و شہروں کے اختلاف ؛اور عقائد و مذہب کے اختلاف کے باوجود؛ اور ان کے علوم و فنون میں اختلاف ہوتے ہوئے بھی یہ سارے عبد اللہ بن سبا کے من گھڑت قصے کو برابر (اتفاق سے ) بیان کریں۔ سو آج کل کے شیعہ منکرین اور ان کے ڈھنگ پر رواں مستشرقین؛ اور ان کی کشتی میں سوار ہونے والے معاصر مؤلفین کے لیے؛ جوکہ عبد اللہ بن سبا کے وجود کا انکار کرتے ہیں ؛ اب کچھ باقی نہیں رہ جاتا سوائے اس کے کہ وہ اس کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا اعتراف کرلیں۔ چوتھی بحث:… رافضیوں کی ایجاد میں عبداللہ بن سبا یہودی کا کردار پہلی فصل میں مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کی سازشیں بیان کرتے ہوئے میں اس سازش کا بیان کرچکا ہوں جس کی قیادت عبد اللہ بن سبا کررہا تھا۔ جس کی انجام حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے قتل ِ ناحق پر ہوا۔ اس وقت اس ساری فتنہ آمیز سیاسی چال کے پیچھے عبد اللہ بن سبا کی منصوبہ بندی شامل تھی۔ اس بحث میں دور دراز کے مسلمانوں کو عوام سے دور کرنے کے لیے دینی اعتبار سے عبد اللہ بن سبا کے برپا کیے
[1] الخوارج والشیعۃ ۱۷۱۔ [2] یہ مستشرق سوریا گیا ‘ وہاں سے مصر گیا ؛اورمحمد عبدہ سے ملاقات کی : اس کے علمی بقایاجات میں سے :’’ الأساطیر عند الیہود وأدا الجدل عند الشیعۃ‘‘ اور ’’ العقیدۃ والشریعۃ فی الإسلام۔‘‘ مترجم : نجیب العقیقی : المستشرقون : ۳/ ۹۰۶- ۹۰۷۔ [3] ’’ العقیدۃ والشریعۃ فی الإسلام ‘‘ص ۲۰۵۔ [4] قدیم لٹریچر کا بڑا ماہر تھا۔ عربی اور فارسی زبانیں سیکھیں ‘ اور ہندوستان کی لغات پر عبور حاصل کیا۔ اس کی کتابوں میں سے : ’’التصوف الإسلامي‘‘ ہے۔ اور اس نے ایک کتاب لکھی ہے :’’ الأدب العربی في ضوء التاریخ السیاسی والعمرانی للعرب و الإسلام ‘‘۔نجیب العقیقی : المستشرقون: ۲/ ۵۲۵-۵۲۶۔ [5] عقیدۃ الشیعۃ ص ۸۵؛ نقلاً عن مرتضی عسکری : عبد اللّٰه بن سبا و أساطیر أخری ۱/ ۶۱۔ [6] عقیدۃ الشیعۃ ص ۸۵؛ نقلاً عن مرتضی عسکری : عبد اللّٰه بن سبا و أساطیر أخری ۱/ ۶۱۔