کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 115
نے شیعہ کے ہاں اس انسان کی منزلت ؛ اور ان کی اس سے، اور اس کے اقوال و افعال سے براء ت کو جانا ہو؛ اور بغیر کسی اختلاف کے اس کی شخصیت میں شیعہ علماء کے طعن کو جانا ہو ؛ تو وہ اس قول کی صحت اور علمی منزلت کو سمجھ سکتا ہے۔ ‘‘[1]
وجود ابن سباکوثابت کرنے والے مستشرقین
۱۔ فان فلوٹن ( ۱۸۶۶ - ۱۹۰۳ میلادی): [2]
اس کی رائے یہ ہے کہ فرقہ سبائیہ کو عبد اللہ بن سبا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے :
’’ سبائی عبد اللہ بن سبا کے مدد گار ہیں، جو ایام ِ عثمان [ رضی اللہ عنہ ] سے ہی حضرت علی [ رضی اللہ عنہ ] کو خلافت کا زیادہ حقدار سمجھتا تھا۔ [یہ سبائی لوگ] سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کچھ حصہ علی [ رضی اللہ عنہ ] کے جسد میں اورپھر ان کے بعد ان کے خلفاء کے جسد میں آگیا تھا…‘‘[3]
۲۔ جولیوس فلھاوزن: ( ۱۹۱۸م ): [4]
اس نے سبائیت سے متعلق بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بے شک اسے ابن سبا کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اور یہ کہ ایرانیوں سے زیادہ شیعہ عقائد یہودیوں کے قریب ہے۔‘‘ وہ کہتا ہے :
’’اور سبائیت کی تاریخ ایجاد حضرت علی اور حسین [ رضی اللہ عنہما ]کے دور کی ہے ؛ ا ور اسے عبد اللہ بن سبا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اس کے اجنبی نام سے واضح ہے ؛ ایسے ہی یہ یمنی تھا ؛ اور شہر صنعاء کا رہنے والا تھا۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ یہودی تھا ؛ اسی وجہ سے فرقۂ سبائیہ کی اصل یہودی ہونے کے قول کو تقویت دیتا ہے۔ اور مسلمان یہودی کا اطلاق اس پر کرتے ہیں جو واقع الحال کے مطابق نہ ہو۔ اور یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ شیعہ مذہب جسے ابن سبا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، کہ یہ شخص اس فرقہ کا مؤسس ہے؛
[1] شرح نہج البلاغۃ ۵/۵۔
[2] الأنوار النعمانیۃ ۲/۲۳۴۔
[3] تنقیح المقال فی علم الرجال ۲/۱۸۳-۱۸۴۔