کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 114
علی رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے کہ یہ ان کے سامنے کھڑا ہوگیا، اور کہنے لگا : تو ہی ہے تو ہی ہے۔ ‘‘اور اسے بار بار دہرانے لگا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ تیرے لیے بربادی ہو! میں کون ہوں ؟کہنے لگا:’’ تو ہی معبود برحق ہے۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے پکڑنے کا حکم دیا۔ سو اسے کچھ لوگوں کے ساتھ گرفتار کیاگیا؛اور اس کے ساتھ ان لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیا جو اس کے مذہب و عقیدہ پرتھے۔‘‘[1]
۷۔ نعمت اللہ الجزائری (۱۱۱۲ہجری):
نعمت اللہ الجزائری اپنی کتاب انوار نعمانیہ میں کہتا ہے :
’’ عبد اللہ بن سبا نے علی علیہ السلام سے کہا :’’ آپ ہی معبود برحق ہیں۔ ‘‘ تو حضرت علی علیہ السلام نے اسے مدائن کی طرف ملک بدر کردیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ یہودی تھا۔ اس نے اسلام قبول کیا۔ وہ اپنی یہودیت کی زندگی میں یوشع بن نون علیہ السلام کے لیے ایسے ہی کہا کرتا تھاجیسے اس نے علی علیہ السلام کے بارے میں کہا…‘‘[2]
۸۔ المامقانی ( ۱۳۵۱ ہجری):
مامقانی نے اپنی کتاب ’’ تنقیح المقال ‘‘ میں عبد اللہ بن سبا کے حالات زندگی بیان کیے ہیں۔اور اس نے کہا ہے کہ: ’’ اس کے حالات(کتاب) ’’ من لا یحضرہ الفقیہ ‘‘ کے باب ’’التعقیب ‘‘ میں اور ’’باب : أصحاب أمیر المومنین ‘‘ میں بھی ذکر کیے گئے ہیں۔
اور اس کے بارے میں صدوق کا قول بھی نقل کیا ہے کہ :
’’عبد اللہ بن سبا وہ آدمی ہے جو کفر کی طرف لوٹ گیا؛ اور غلو کااظہار کرنے لگا۔‘‘اور کہا ہے : ’’وہ لعنتی بڑا غالی تھا۔ امیر المومنین نے اسے آگ سے جلایا تھا۔ وہ یہ گمان کرتا تھا کہ علی ہی الٰہ ہے، اور علی ہی نبی ہے۔ ‘‘[3]
پھر اس کے بعد اس نے ’’کشی ‘‘ کی روایات عبد اللہ بن سبا کے بارے میں نقل کی ہیں۔
۹۔ محمد حسین المظفری ( ۱۳۶۹ ہجری):
محمد حسین المظفری ان معاصرین شیعہ میں سے ہے جو ابن سبا کے وجود کا انکار نہیں کرتے۔اگرچہ وہ ابن سبا کے ساتھ شیعہ کسی بھی قسم کے تعلق کی نفی کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے :
’’رہی بعض کاتبین کی رائے کہ شیعہ مذہب کی اصل عبد اللہ بن سباء، المعروف ابن سوداء کی ایجاد کردہ بدعت ہے ؛ یہ ایک وہم ہے۔ اور ان کی اس مذہب کے بارے میں کم معرفت [کی وجہ سے ] ہے۔ جس
[1] رجال الکشی :ص : ۷۱-۷۰۔
[2] من لا یحضرہ الفقیہ ۱/۲۲۹۔
[3] الخصال :ص ۶۲۸۔