کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 113
روئے، اپنے اس قول سے رجوع کر لے ؛ اور توبہ کر۔ مگر اس نے انکارکیا تواسے قید کردیا۔ اور اسے توبہ کرنے کے لیے تین دن کی مہلت دی۔ مگر اس نے توبہ نہ کی۔ تو حضرت علی نے اسے آگ سے جلوایا۔ اور فرمانے لگے: ’’ شیطان نے اسے گمراہ کردیاہے، اس کے پاس آکر یہ باتیں سکھاتا ہے،اور اس کے دل میں یہ باتیں ڈالتا ہے۔ ‘‘
ابو عبد اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں :’’ اللہ تعالیٰ عبد اللہ بن سبا پر لعنت کرے ؛ اس نے امیر المومنین علیہ السلام میں ربوبیت کا دعویٰ کیا۔ اور اللہ کی قسم ! امیر المومنین علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے تھے۔‘‘ اس انسان کے لیے ہلاکت ہو جس نے ہم پر جھوٹ باندھا۔ بے شک لوگ ہمارے متعلق وہ باتیں کہتے ہیں جو ہم خود اپنے متعلق نہیں کہتے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں ان سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں ؛ ہم اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں ان سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔ ‘‘[1]
۵۔ الصدوق (۳۸۱ ہجری):
اس نے دعا کی کیفیت کے بارہ میں ایک حدیث لائی ہے، جس میں ابن سبا کا ذکر ہے۔ وہ باب (التعقیب ) میں،کتاب ( من لا یحضرہ الفقیہ؛ روایت نمبر ۹۵۵ ) میں کہتا ہے:
’’امیر المومنین علی علیہ السلام نے کہا: ’’ جب تم میں سے کوئی ایک اپنی نماز سے فارغ ہو،تووہ اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے۔‘‘
تو عبد اللہ بن سبا نے کہا : ’’ اے امیر المومنین ! کیا اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر موجود نہیں ہے؟ کہا: کیوں نہیں۔ تو (ابن سبا ) کہنے لگا: ’’ پھر آسمانوں کی طرف ہاتھ کیوں اٹھائے جائیں۔ تو ( حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ) فر مایا: ’’ کیا تم یہ آیات نہیں پڑھتے :
﴿ وَفِی السَّمَاء رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ﴾ ( الذاریات:۲۲)
’’ اور تمہارا رزق اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے آسمان میں ہے۔‘‘
تو رزق کہاں سے طلب کیا جاتا ہے ؛ سوائے اس کی جگہ کے ا ور رزق کی جگہ آسمانوں میں ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے۔ ‘‘[2]
اس روایت کو طویل روایات کے ضمن میں کتاب ( الخصال ) میں بھی ذکر کی ہے۔[3]
۶۔ ابن ابی الحدید (۶۵۶ ہجری):
اس نے ذکر کیا ہے کہ ابن سبا وہ پہلا آدمی تھا جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں غلو کیا۔ وہ کہتا ہے :
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں سب سے پہلے جس نے غلو کااظہار کیا ؛وہ عبد اللہ بن سبا ہے۔ حضرت
[1] اصول النحل نقلاً عن عبد الرحمن بدوی : مذاہب اسلامیین ۲/۴۳۔
[2] المقالات والفرق ص: ۲۰۔
[3] فرق الشیعۃ ص: ۲۲۔