کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 111
طبقات اور ادب میں لکھنے والوں اور بعض خاص فنون میں کتابیں لکھنے والوں کا عبد اللہ بن سبا کی شخصیت کے وجود پر اجماع ہے۔ ‘‘[1] پھرمستشرقین میں سے بعض ان لوگوں کا ذکرکیا ہے، جو ابن سبا کے وجود کے منکر ہیں۔ اور مستشرقین کے ان پیروکاروں کا جو ان کی آراء و افکار سے متاثر ہیں، جیسے طہ حسین؛ ڈاکٹر محمد کامل حسین ؛ اور ڈاکٹر حامد حفنی محمود اور ان کے علاوہ دیگر لوگ۔ پھر اس کے بعد ان معاصر شیعہ لوگوں کا ذکر کیا ہے جو ابن سبا کا انکار کرنے لگے ہیں۔ اور ان کے اقوال ذکر کرتے ہوئے ان پر رد بھی کیاہے۔ پھر شیعہ کے ہاں ثقہ کتب ؛ جن میں ابن سبا کے وجود کا اثبات ہے ؛ کے ایک مجموعہ سے دلائل نقل کیے ہیں -جن سے ابن سبا کا وجود ثابت کیا ہے۔ یہ معاصر شیعہ میں سے ہر اس انسان پر الزامًا ثبوت ہے، جو ابن سبا کے وجود کا انکار کرتا ہے۔ ڈاکٹر سعدی سبائیت کے ان بعض عقائد کو ذکر کرنے بعد، جنہیں ابن سبا نے گھڑ لیا تھا ؛ جیسے عصمت کا عقیدہ ؛ وصیت کا قول ؛ اور علی رضی اللہ عنہ کے دشمنان سے براء ت کا قول ؛ اور آپ کے الٰہ ہونے کا قول ؛ اور ساتھ ہی خود شیعہ کی کتب سے ان عقائد پر دلائل بھی ذکر کیے ہیں، اپنی بحث کو ختم کیا ہے۔ یہ ابن سبا کی شخصیت کی حقیقت کو پختہ اور یقینی بناتی ہے۔ وہ کہتے ہیں : ’’ان نقول اور واضح نصوص ؛ جو انہی لوگوں کی کتب سے نقل کی گئی ہیں ؛ ہمارے لیے ابن سبا یہودی کی شخصیت کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ ‘‘ اور شیعہ میں سے جن لوگوں نے اس پر طعن کیا ہے، یقینا اس نے اپنی ان کتابوں پر طعن کیا ہے جنہوں نے ان کے ہاں اس یہودی (ابن سبا) پر ان کے ائمہ معصومین کی لعنتیں نقل کی ہیں۔ یہ بات نہ ہی جائز ہوسکتی ہے، اور نہ ہی اس کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ ان ائمہ معصومین سے کسی مجہول شخص پر لعنتیں نکلیں جیساکہ ان لوگوں کے ہاں یہ بھی جائز نہیں کہ معصوم کی بات کو جھٹلایا جائے۔ ‘‘[2] شیعہ علماء میں وجود ابن سبا کوثابت کرنے والے ۱۔ الناشی ء الاکبر ( ۲۹۳ ہجری): ناشی اکبرنے عبد اللہ بن سبا کا ذکر فرقہ سبائیہ کے ضمن میں کیا ہے۔ وہ کہتا ہے : ’’ایسا فرقہ ہے جن کا گمان یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام زندہ ہیں، ابھی تک مرے نہیں۔ اور ان کی موت اس
[1] مذاہب اسلامیین ۲/ ۳۶-۳۷۔ [2] ’’ عبد اللّٰه بن سبا و أثرہ في إحداث الفتنۃ في صدر الإسلام ‘‘ص ۱۱۰۔