کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 110
کردار تھا، جو اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف سازشوں سے شروع کیا، اور پھر آپ کو قتل کیا گیا۔ اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے معرکہ کے ساتھ ختم ہوا، تاکہ آپ کی خلافت قائم رہے۔سو اس آدمی کے مذہب کی حقیقت کیا ہوگی۔‘‘[1]
پھر انہوں نے اصحاب الفرق والمقالات سے وہ عقائد نقل کیے ہیں جو ابن سبا نے ایجاد کر لیے تھے۔
۳۴۔الشیخ سلیمان بن حمد العودہ:
((عبد اللّٰه بن سبا و أثرہ في إحداث الفتنۃ في صدر الإسلام۔))
’’ عبد اللہ بن سبا اور اسلام کے ابتدائی دور میں فتنہ برپا کرنے میں اس کے اثرات۔ ‘‘
یہ اس علمی مقالے کانام ہے جو شیخ سلیمان العودہ نے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے جامعہ امام محمد بن سعود الاسلامیہ میں پیش کیا ہے۔ شیخ سلیمان حفظہ اللہ نے اپنے مقالہ کی دوسری فصل ابن سبا کی حقیقت ثابت کرنے کے لیے خاص کی ہے۔
پھر انہوں نے ابن سبا کی اصل، اس کی نشاۃ ؛ عہد ِ عثمان میں مسلمانوں میں اس کے ظہور ؛ اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے ؛ اور ان کی صفوں میں فتنہ پیدا کرنے کے لیے مختلف شہروں میں اس کی گردش کے بارے میں علماء کے اقوال نقل کیے ہیں۔
انہوں نے ابن سبا کے بارے میں پرانے اور نئے دور کے شیعہ اور اہل سنت علماء اور محققین کے اقوال پیش کیے ہیں،اورپھر اس کے بارے میں مستشرق علماء کے اقوال بھی پیش کیے ہیں۔
پھر انہوں نے ان اقوال پر تنقید و تحقیق کرتے ہوئے وجود ِ ابن سبا کے منکرین پر رد کیا ہے۔ اور اپنے کلام کو اس بات پر ختم کیا ہے :
’’اس تمام( تحقیق و تنقید سے) جو پہلے گزرچکی ہے ؛ میں بطور خلاصہ اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ : ’’ بے شک عبد اللہ بن سبا واقعی ایک تاریخی شخصیت ہے۔ اور اس کے انکار ؛ یا اس کے وجود میں شک کے لیے باحثین یا علمی مقالے لکھنے والوں میں سے کسی کے پاس کوئی عذر نہیں ہے۔ ‘‘[2]
۳۵۔ڈاکٹر سعدی الہاشمی:
اس نے ایک علمی تحقیقی بحث ان لوگوں کے رد پر لکھی ہے جو ابن سبا کے وجود کے منکر ہیں۔ اس کا نام ’’ابن سبا حقیقۃ لا خیال ‘‘ رکھا ہے۔ اپنی بحث کے شروع میں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں :
’’محدثین، اہل جرح و تعدیل، مؤرخین، اور فرق و مقالات پر کتابیں لکھنے والوں، ملل و نحل پر لکھنے والوں،
[1] الصراع بین الاسلام و الوثنیۃ ۱/۹۔
[2] الصراع بین الاسلام و الوثنیۃ ۱/۱۱۔