کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 108
رکھتے ہیں، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنی خلافت کے دور میں آگ سے جلایا تھا۔‘‘[1]
۲۹۔السفارینی (۱۱۸۸ ہجری ):
شیعہ فرقوں کے ضمن میں سبائیت کا ذکرکیا ہے ؛اور فرمایا ہے:
’’یہ عبد اللہ بن سبا کے پیرو کار ہیں، جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: بے شک آپ ہی معبود برحق ہیں۔‘‘
یہ بات کہنے والے جو لوگ پکڑے گئے، ان کے لیے خندقیں کھود کر آگ سے جلایاگیا۔[2]
۳۰۔عبد العزیز بن ولی اللہ الدہلوی(۱۲۳۹ ہجری ):
شیعہ فرقوں کے ضمن میں اپنے کلام میں فرماتے ہیں :
’’پہلا فرقہ : سبائی ہیں ؛ عبد اللہ بن سبا کے ساتھی۔ جنہوں نے کہا تھا کہ : بے شک حضرت علی ہی معبود برحق ہیں۔ جب امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ شہید ہوگئے تو عبد اللہ بن سبا گمان کرنے لگا کہ :
’’ بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ نہیں مرے۔‘‘ اور ابن ملجم نے شیطان کو قتل کیا ہے، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا روپ دھارے ہوئے تھا۔ اور یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بادلوں میں چھپے ہوئے ہیں۔اوریہ کہ کڑک آپ کی آواز اور بجلی آپ کا کوڑا ہے۔ ‘‘[3]
جدید دورکے محققین
حقیقت تو یہ ہے کہ ابن سبا کے وجود کو معاصر علماء اور محققین نے بھی ثابت کیا ہے۔ ان میں سے چند کا ذکر کرتا ہوں، اور ان پہلے (علماء کے )ساتھ ان کا اضافہ کرتا ہوں جو ابن سبا کے وجود کو ثابت کرنے والے ہیں۔
۳۱۔ خیر الدین الزر کلی :
انہوں نے اپنی کتاب ’’ الأعلام ‘‘میں عبد اللہ بن سبا کے حالا ت زندگی لکھے ہیں ؛ اور کہا ہے :
عبد اللہ بن سبا طائفہء سبیہ (سبائیت ) کا سردار اور کرتا دھرتا ہے۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے الہ(معبود) ہونے کا کہتا تھا۔ اصل میں یمن کا باشندہ تھا۔ اور کہا گیا ہے کہ وہ یہودی تھا ؛ اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔‘‘[4]
۳۲۔عبداللہ القصیمی :
انہوں نے ابن سبا کا تذکرہ اپنی کتاب ’’ الصراع بین الاسلام و الوثنیۃ ‘‘ میں کئی ایک جگہ پر ذکر کا ہے۔ گمراہ فرقوں اورلوگوں کو گمراہ کرنے اور دھوکا دینے کیلئے ان کی ایجاد کردہ بدعات اور گمراہیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
[1] الاعتصام ۲/۱۹۷۔
[2] أنظر : شرح العقیدۃ الطحاویۃ ص : ۵۷۸۔
[3] تعریفات ص ۱۰۳۔
[4] الخطط ۲/۳۵۶۔