کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 107
۲۴۔الشاطبی (۷۹۰ہجری):
انہوں نے سبائیت کی بدعت( عبد اللہ بن سبا کے ساتھیوں ) کا ذکر کیا ہے، اور کہا ہے : یہ اعتقادی بدعت ہے، جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے الٰہ کے وجود سے متعلق ہے۔ ‘‘[1]
۲۵۔ابن ابی العز الحنفی (۷۹۲ہجری):
انہوں نے شرح عقیدہ طحاویہ میں ذکر کیا ہے کہ :’’ عبد اللہ بن سبا نے اسلام کا اظہار کیا ؛وہ تو صرف یہ چاہتا تھا کہ دین اسلام کوخراب کرے ؛ جیساکہ پولس نے عیسائیت میں کیا تھا۔‘‘[2]
۲۶۔الجرجانی (۸۱۶ہجری):
انہوں نے سبائیت کا ذکر کیا ہے ؛ اور فرمایا ہے :
’’ عبد اللہ بن سبا کے ساتھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے :بے شک آپ ہی معبود برحق ہیں۔‘‘ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں مدائن کی طرف جلا وطن کردیا۔ اور ابن سبا نے کہا :
’’بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ نہیں مرے اور ابن ملجم نے شیطان کو قتل کیا ہے، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا روپ دھارے ہوئے تھا۔‘‘[3]
۲۷۔المقریزی (۸۱۶ہجری):
علامہ مقریزی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں اور جو کچھ حادثات ان کے دور میں پیش آئے ؛ان کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’ان(حضرت علی رضی اللہ عنہ ) کے دور میں عبد اللہ بن وہب بن سبا المعروف ابن سوداء کھڑا ہوا، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت علی کے لیے امامت کی وصیت کا قول ایجاد کیا ؛ اور یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے وصی اور اس امت کے خلیفہ ہیں۔ اوراس حضرت علی رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا میں دوبارہ لوٹ کر آنے کا قول ایجاد کیا۔‘‘[4]
۲۸۔ابن حجر ( ۸۵۲ ہجری ):
حافظ صاحب رحمہ اللہ نے ابن عساکر سے ا بن سبا کی حکایات نقل کی ہیں،اور پھر کہا ہے :
’’عبد اللہ بن سبا کی خبریں تاریخ میں اتنی مشہور ہیں ؛ مگر (حدیث میں ) اس کی کوئی روایت نہیں ہے۔ اور اس کے پیرو کار ہیں جنہیں سبائیہ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں الوہیت کا عقیدہ
[1] مجموع الفتاوی : ۴/۴۳۵۔
[2] مجموع الفتاوی : ۴/۴۸۳۔
[3] التمہید و البیان فی مقتل عثمان رضی اللّٰه عنہ ؛ ص ۵۴۔نقلاً عن سلیمان العودۃ ؛ عبداللّٰه بن سبا و اثرہ فے احداث الفتنۃ ص ۵۶۔
[4] المغنی فی الضعفاء ۱/۲۳۹۔
[5] میزان الاعتدال ۲/ ۴۲۶۔
[6] الوافی بالوفیات (مخطوط ۱۷/۱۰)۔نقلاً عن سلیمان العودۃ ؛ عبداللّٰه بن سبا و اثرہ فے احداث الفتنۃ ص ۵۷۔
[7] البدایۃ والنہایۃ ۷/۱۶۷۔