کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 106
(یہ قول) ابن سبا زندیق نے ایجاد کرلیاتھا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں امامت اوراس پر نص کے دعویٰ سے غلو کا اظہار کیا۔ ‘‘[1]
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : ’’ اہل علم نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ بے شک رافضیت کا مبداء عبد اللہ بن سبا زندیق ہے۔ ‘‘[2]
۲۰۔المالقی (۷۴۱ہجری):
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا قصہ بیان کرتے ہوئے عبد اللہ بن سبا کا ذکر کیا ہے ؛ فرمایا:
’’اور سن تینتیس ہجری میں ایک جماعت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف سر گرم ہوگئی۔ یہ ایک پورا گروہ تھا ؛ جن میں مالک الاشتر ؛ اسود بن یزید ؛ اور عبد اللہ بن سبا المعروف ابن سوداء شامل ہیں۔ ‘‘[3]
۲۱۔الذہبی (۷۴۸ہجری):
علامہ موصوف رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن سبا کے حالات زندگی تحریر کرتے ہوئے فرمایا ہے :
’’وہ غالی قسم کاگمراہ شیعہ تھا ؛ جو لوگوں کو گمراہ کرتا تھا ؛ یہ بات ’’ المغنی فی الضعفاء ‘‘[4]میں لکھی گئی ہے۔ اور میزان الاعتدال میں کہا ہے : ’’ عبد اللہ بن سبا غالی قسم کے گمراہ زندیقوں میں سے تھا، جو لوگوں کوگمراہ کرتا ہے ؛ میرے خیال کے مطابق علی رضی اللہ عنہ نے اسے ہی آگ سے جلایا تھا۔ ‘‘[5]
۲۲۔ الصفدی (۷۶۴ہجری):
انہوں نے الوافی بالوفیات میں ابن سبا کے حالات زندگی نقل کیے ہیں ؛ اور کہا ہے :
’’بے شک آپ ہی معبود برحق ہیں۔‘‘ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں مدائن کی طرف جلا وطن کردیا۔‘‘[6]
۲۳۔ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۷۴ہجری):
انہوں نے ابن سبا اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے میں اس کے کردار کا ذکر کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
’’سیف بن عمر نے ذکر کیا ہے کہ : ’’ بے شک لوگوں کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا سبب ایک آدمی ہے جسے عبد اللہ بن سبا کہا جاتا ہے، یہ یہودی تھا جس نے اسلام کا اظہار کیا …‘‘[7]
[1] الأنساب ۷/۴۶۔
[2] دیکھو: تاریخ دمشق ؛ اور اسی کتاب کے صفحہ ۱۱۹۔
[3] الحور العین ص: ۱۵۴۔ نقلاً عن سلیمان العودۃ ؛ عبداللّٰه بن سبا و اثرہ فی احداث الفتنۃ ص ۵۷۔
[4] اعتقادات فرق المسلمین و المشرکین ص: ۵۷۔
[5] الکامل فی التاریخ ۳/ ۷۷‘ و ما بعدھا۔