کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 105
۱۴۔السمعانی (۵۶۸ہجری):
انہوں نے عبد اللہ بن سبا کا ذکر کیا ہے، اور فرمایا ہے :
’’بے شک وہ رافضیوں میں سے تھا۔ اور ایک جماعت ان میں سے اسی کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ انہیں ’’سبائی ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور عبد اللہ بن سبا ء ہی وہ شخص ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا:
’’بے شک آپ ہی معبود برحق ہیں۔‘‘ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے مدائن کی طرف جلا وطن کردیا۔‘‘[1]
۱۵۔ابن عساکر (۵۷۱ہجری):
انہوں نے عبد اللہ بن سبا کے بارے میں کئی روایت ذکرکی ہیں۔ ان میں سے بعض سیف بن عمر کی سند سے ہیں۔ اور بعض سیف کے علاوہ دوسری اسناد سے ہیں۔ اور ان میں بعض روایا ت کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ [2]
۱۶۔نشوان الحمیری (۵۷۳ہجری):
انہوں نے سبائیت اور ابن سبا کا ذکر کیا ہے ؛ فرماتے ہیں :
’’ سبائی (عبد اللہ بن سبا اور جس نے اس کی بات کو اپنایا)کہنے لگے:’’ بے شک علی رضی اللہ عنہ نہیں مرے، اور نہ ہی مریں گے یہاں تک کہ زمین عدل سے ایسے بھر جائے جیسے ظلم سے بھر چکی ہے۔ ‘‘[3]
۱۷۔فخر الدین الرازی (۶۰۶ہجری):
غالی فرقوں کے بارے میں بیان کرتے ہوئے ان میں (سبائی فرقہ ) کا ذکر کیا ہے۔ اور فرمایا ہے :
’’یہ عبد اللہ بن سبا کے پیرو کار ہیں۔ اور یہ (ابن سبا )گمان کرتا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی معبود برحق (الٰہ ) ہیں۔‘‘[4]
۱۸۔ابن الاثیر (۶۳۰ہجری):
انہوں نے طبری سے بعض روایات عبد اللہ بن سبا کے بارے میں نقل کی ہیں، اور ان کی سندیں حذف کردی ہیں۔ [5]
۱۹۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ(۷۲۸ہجری):
شیخ الاسلام نے اپنی کتابوں میں کئی جگہ ابن سبا کا ذکر کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا ہے:’’ یہی وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے رافضی مذہب کی بدعت ایجاد کی۔اور رافضیت کی اصل منافقین اور زندیقوں سے نکلتی ہے۔ اس لیے کہ بے شک
[1] التنبیہ و الرد علی أھل الأھواء والبدع ص ۱۸۔
[2] الفرق بین الفرق ص : ۲۳۳۔
[3] الفصل فی الملل و الأہواء و النحل ۵/ ۳۶۔
[4] التبصیر فی الدین ۱۲۳
[5] الملل و النحل ۱/۱۷۴۔