کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 104
’’ یہ عبد اللہ بن سبا کے ساتھی ہیں جنہوں نے حضر ت علی کرم اللہ وجہہ سے کہا تھا : ’’بے شک آپ ہی ہیں ؛ آپ ہی ہیں۔ ‘‘(حضرت علی نے ) کہا: ’’میں کون ہوں ؟ کہنے لگے : ’’ آپ ہی خالق اور باری ہیں۔‘‘[1] ۱۰۔ البغدادی ( ۴۲۱ ہجری ): انہوں نے سبائی فرقہ کو خارج از اسلام شمار کیا ہے ؛ پھر کہا ہے : ’’ عبد اللہ بن سبا کے پیرو کار ہیں ؛ جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کیا ؛ اور یہ گمان کرنے لگا کہ حضرت علی نبی تھے ؛ پھر یہ غلو اور بڑھا، اور کہنے لگا : بے شک علی ہی معبود برحق ہے۔‘‘[2] ۱۱۔ ابن حزم اندلسی (۴۵۶ ہجری): مقالات شیعہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ابن سبا کا تذکرہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں : ’’سبائی؛ عبد اللہ بن سبا الحمیری یہودی کے ساتھی کہنے لگے : ’’ بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ نہیں مرے، وہ بادلوں میں زندہ ہیں۔‘‘ اور کہا ہے : ’’عبد اللہ بن سبا نے کہا (جب اسے حضرت علی کے قتل کی خبر پہنچی) : اگر تم علی کا دماغ بھی میرے پاس ستر برتنوں میں رکھ کر لے آؤ، تب بھی میں ان کی موت کی تصدیق کرنے والا نہیں۔‘‘[3] ۱۲۔ الاسفرائینی(۴۷۱ ہجری): انہوں نے سبائیت کے بارے میں بیان کیا ہے ؛ اور فرمایا ہے : ’’بے شک یہ عبد اللہ بن سبا کے ساتھی ہیں۔‘‘ اور کہا گیا ہے کہ بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن سبا کوقلعہ مدائن کی طرف جلا وطن کردیا۔‘‘ اور جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا گیا تو اس نے کہنا شروع کردیا:’’ علی نہ ہی قتل ہوئے ہیں، اور نہ ہی مرے ہیں۔‘‘[4] ۱۳۔الشہرستانی (۵۴۸ہجری): انہوں نے سبائیوں کا ذکر کیا ہے، اور فرمایا ہے : ’’ یہ عبد اللہ بن سبا کے ساتھی ہیں جس نے حضر ت علی کرم اللہ وجہہ سے کہا تھا : ’’بے شک آپ ہی ہیں ؛ آپ ہی ہیں۔ ‘‘یعنی آپ ہی معبود برحق ہیں۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں مدائن کی طرف جلا وطن کردیا۔‘‘ [5]
[1] العقد الفرید ۲/۲۴۵۔ [2] مقالات الاسلامیین ۱/۸۶۔ [3] المجروحین۱/۲۰۸۔ [4] المجروحین۲/۲۵۳۔ [5] البدء و التاریخ ۵/۱۲۹۔