کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 103
لگے:’’ وہی ہمارا خالق اللہ ہے۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے بہت بلند ہے۔ [1] ۶۔ ابو الحسن الاشعری (۳۳۰ہجری): انہوں نے سبائیت کا تذکرہ کیاہے، اور کہا ہے : ’’یہ عبد اللہ بن سبا کے ساتھی ہیں ؛جن کا گمان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نہیں مرے، اور دنیا کی طرف لوٹ کر آئیں گے۔ ‘‘اور یہ بھی تذکرہ ملتا ہے کہ ابن سبا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: ’’بے شک آپ ہی ہیں آپ ہی ہیں۔ ‘‘[2] ۷۔ ابن حبان(۳۳۵ ہجری ): انہوں نے اپنی کتاب ’’المجروحین ‘‘ میں دو جگہ پر ابن سبا کا تذکرہ کیا ہے۔ جابر بن یزید الجعفی کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے کہا ہے : ’’ سبائی تھا ؛ عبد اللہ بن سبا کے ساتھیوں میں سے تھا۔‘‘[3] اور محمد بن سائب کلبی کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے کہا ہے : ’’ کلبی سبائی تھا ؛ عبد اللہ بن سبا کے ساتھیوں میں سے تھا۔‘‘[4] ۸۔مطہر بن طاہر المقدسی (۳۵۵ ہجری): انہوں نے سبائیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاہے :’’انہیں طیارہ(اڑنے والے ) بھی کہا گیا ہے، اس لیے کہ یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ ہم مرتے نہیں، اور ان کی موت (فلس نامی ) کچھ پرندے ہیں۔اور یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نہیں مرے، وہ بادلوں میں زندہ ہیں۔ اور جب کڑک سنتے ہیں تو کہتے ہیں : ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غصہ آگیا ہے۔ ‘‘ نیز کہا ہے : ’’عبد اللہ بن سبا نے کہا (جب اسے حضرت علی کے قتل کی خبر پہنچی): اگر تم علی رضی اللہ عنہ کا دماغ بھی میرے پاس ستر برتنوں میں رکھ کر لے آؤ، تب بھی میں ان کی موت کی تصدیق کرنے والا نہیں ؛ یہاں تک کہ وہ عربوں کو اپنی لاٹھی سے ہانک نہ لیں۔‘‘[5] ۹۔الملطی (۳۷۷ ہجری): انہوں نے سبائیت کے بارے میں بیان کیا ہے، اور پھر کہا ہے :
[1] المحبر ص: ۳۰۸ [2] البیان و التبیـین ۳/ ۸۱۔ [3] المعارف ص ۶۲۲۔