کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 102
دوسرا کچھ اور دعویٰ بھی کرسکتا ہے لیکن اعتبار تو حجت اور دلیل کا ہوتا ہے۔
جب کہ ابن سبا کی شخصیت ایک حقیقت ہے جسے شیعہ اور اہل سنت محققین اور مؤرخین نے ثابت کیا ہے۔ پرانے لوگوں میں سے کسی نے بھی اس کا انکارنہیں کیا۔ آج تک اہل ِ سنت اور شیعہ میں سے انصاف پسند ؛اور مستشرقین کی ایک بڑی جماعت اس کے وجود کو ثابت کرتی ہے۔
میں (مصنف)ذیل میں ان مشاہیر لوگوں کا ذکر کروں گا جو اہل سنت اور اہل تشیع کے پرانے اور عصر حاضر کے علماء ابن سبا کے وجود کو ثابت کرتے ہیں۔اور ایسے ہی ان مستشرقین کا بھی ذکر کروں گا جنہوں نے ابن سبا کے وجود اور قدیم اور جدید دور میں علماء کی درمیان اس کی شہرت کو ثابت کیا ہے۔
وجود ِابن سبا کے قائل غیر شیعہ
۱۔ابن الحبیب البغدادی (۲۴۵ہجری):
انہوں نے ابن سبا کا ذکر کیا ہے، اور اسے حبشنوں کے بیٹوں میں سے شمار کیا ہے۔[1]
۲۔الجاحظ (۲۵۵ہجری):
جاحظ نے زحر بن قیس سے روایت نقل کی ہے جس میں ابن سبا کا ذکرآ یا ہے؛ اور کہا: (یعنی زحر بن قیس نے) میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مارے جانے کے بعد مدائن گیا ؛ وہاں پر میری ملاقات ابن سوداء سے ہوئی ؛ یہی ابن حرب ہے۔[2]
۳۔ ابن قتیبہ (۲۷۶ہجری ) :
ابن قتیبہ نے سبائیت کا ذکر کیا ہے ؛ اور اس بات کی خبر دی ہے کہ اسے ابن سبا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، اور کہا ہے:
’’ سبائیت رافضیوں میں سے ہیں ؛ جنہیں عبد اللہ بن سبا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ سب سے پہلا انسان ہے جس نے رافضیوں میں سے کفر کیا ؛ اورکہا : علی رب العالمین ہے۔ توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے اور اس کے ساتھیوں کوآگ سے جلا ڈالا۔ ‘‘[3]
۴۔ الطبری(۳۱۰ ہجری ):
انہوں نے ابن سبا کا پورا طویل قصہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں فتنے بھڑکانے کے واقعات نقل کیے ہیں۔ جن کا ذکر اس کتاب میں پہلے گزر چکا ہے، وہاں دوبارہ دیکھ لیا جائے۔
۵۔ ابن عبد ربہ(۳۲۸ ہجری):
انہوں نے ابن سبا اور سبائیوں کاقصہ نقل کیا ہے کہ ان لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کیا، اور کہنے