کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 101
آپس میں اللہ کے لیے محبت کرنے والے تھے۔ اور صحابہ نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔ ‘‘
یہاں پر حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت اور ابن سبا کے غلو میں فرق ہے۔ ابن سبا وہ شخص ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: ’’ آپ ہی ہیں، آپ ہی ہیں۔‘‘ اور یہ وہ انسان ہے جب اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچی ؛ وہ اس وقت مدائن میں تھا تو اس نے اس کی تصدیق ہی نہیں کی۔ ابن سبا ہی وہ شخص ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مرنے کے بعد دوبارہ اس دنیا میں آنے کا عقیدہ گھڑ لیا۔ یہ کہاں اور وہ کہاں ؟
۴۔ رہا یہ الزام کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ مصر گئے اور لوگوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بھڑکایا۔یہ تاریخی کتابوں میں منقول واقعہ میں تحریف ہے۔ اور حقائق کو الٹایا جارہا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ ہی ان سے نمٹ لے گا حالانکہ جناب حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اس لیے مصر نہیں گئے تھے کہ وہ لوگوں کو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خلاف بھڑکائیں ؛بلکہ انہیں تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لیے مصر اس وقت بھیجا تھا جب ان کے پاس لوگوں میں ابن سبا کے فساد پھیلانے کی خبریں پہنچیں۔
اس بارے میں طبری، ابن کثیر ؛ ابن اثیر ؛ اور دوسرے مؤرخین کی روایات کچھ پہلے گزر ی ہیں۔
ابن سبا کے منکرین کی تیسری دلیل پر رد:
ان کی دلیل یہ ہے کہ مؤرخین کا جنگ صفین میں ابن سبا کے ذکر سے اعراض کرنا اس کے عدم وجود کی دلیل ہے۔ اس میں ابن سبا کے عدم وجود پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ مؤرخین نے ان حادثات میں پیش آنے والے ہر( چھوٹے بڑے)معاملے کا اپنی کتابوں میں بیان کرنے کا التزام نہیں کیا۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ ابن سبا نے جنگ صفین میں شرکت کی ہے۔ یا فرض کریں کہ اس نے اس جنگ میں شرکت نہیں کی۔ کیا یہ ابن سبا کے عدم ِ وجود کی دلیل بن سکتی ہے کہ اس طرح اس تاریخ کا انکار کردیا جائے جس میں مؤرخین نے ابن سبا کے وجود کو ثابت کیا ہے۔ اور اس کا وہ کردار جو اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں فتنہ پید ا کرنے کے لیے ادا کیا ہے، اس کا انکار کردیا جائے۔ ‘‘میرا ایمان ہے کہ یہ بات اتنی قوی نہیں ہے کہ اسے شیعہ و سنی محققین و مؤرخین نے جو واقعہ تواتر کے ساتھ ثابت کیا ہے ؛ اس پر قوت حاصل ہو،(اوراس کو بنیاد بناکر اہم ترین متفق علیہ تاریخی واقعات کا انکار کر دیا جائے)۔
ابن سبا کے منکرین کی چوتھی دلیل پر رد:
ان کا یہ گمان کہ ابن سبا کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا؛ بلکہ وہ ایک وہمی (افسانوی) شخصیت ہے ؛ جسے شیعہ کے دشمنوں نے گھڑ لیا ہے تاکہ وہ اس کے یہودیت کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے شیعہ پر تنقید کرسکیں۔
ان سے کہا جائے گایقینا اس دعوے پر حجت نہیں قائم ہوسکتی۔ جس طرح آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں، ایسے ہی کوئی
[1] ارکان اربعۃ ‘‘ رافضہ کے ہاں یہ ہیں : عمار بن یاسر ؛ حذیفہ بن یمان؛ سلمان فارسی؛ اور جندب بن جنادہ۔ فرق الشیعۃ: نو بختی : ص ۱۸۔
[2] ڈاکٹر سعدی الہاشمی : ’’ ابن سبا حقیقۃ لا خیال ‘‘ ص ۲۱۔
[3] صرف یہی نہیں ‘ بلکہ بسا اوقات ‘نام کنیت‘ والداور دادا کے نام تک مشابہ ہوتے ہیں۔