کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 100
دوسری وجہ : …شیعہ کے ہاں جرح و تعدیل اورثقہ رجال کی کتابیں اس قول کو رد کرتی ہیں۔ اس لیے کہ ان کی کتابوں نے عمار بن یاسر کے حالات ِ زندگی حضرت امیر المومنین کے ساتھیوں میں کیا ہے۔ اور اس کے راوی ’’ارکان اربعہ‘‘[1]کے راوی ہیں۔
ایسے ہی انہوں نے عبد اللہ بن سبا کے حالات زندگی بھی نقل کیے ہیں اور ان مواصفات سے ذکر کیا ہے :
’’ بے شک وہ زندیق اور ملعون تھا۔ اور امیر المومنین پر جھوٹ بولا کرتا تھا۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ان دونوں کی سوانح حیات کو جمع کریں ؟‘‘[2] ( دو علیحدہ علیحدہ آدمیوں کو ایک ہی مان لیں۔)
تیسری وجہ : …جو کچھ بھی وردی، شیبی اور ان کے علاوہ دوسروں نے ذکر کیا ہے ؛ وہ دلائل جن کی بنا پر وہ کہتے ہیں کہ ابن سبا ہی عمار بن یاسر تھا، یہ دلائل غیر صحیح اور باطل ہیں۔
۱۔ ان دونوں کا یہ کہنا کہ:’’ ابن سبا کو ابن سودا ء کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اور ایسے عمار بن یاسر کی کنیت بھی ابن سوداء ہے۔ صرف کنیت میں اتحاد ہونا (اس شرط پر کہ عمار بن یاسر کی یہ کنیت ثابت بھی ہوجائے)اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ یہ دونوں ایک ہی شخص ہیں۔ اور اگر ڈاکٹر وردی اور جن لوگوں نے ان کے رائے سے دھوکا کھایا ہے، یہ لوگ کتب ِ تراجم(حالات زندگی پر لکھی ہوئی کتابیں ) کی طرف رجوع کرتے تو انہیں پتہ چلتا کہ کتنے ہی لوگ ہیں جو ناموں میں اور کنیت میں مشابہ ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے علماء و مؤرخین کو مشابہ اسما ء اور کنی (کنیت )میں مستقل کتابیں لکھنا پڑیں۔[3]
۲۔ ایسے ہی ان کا یہ کہنا کہ :’’ عمار بن یاسر یمنی تھے۔‘‘ تو کیا ہر یمنی کے لیے ہم یہ کہیں گے کہ وہ ابن سبا ہے ؛ ایساکرنا درست ہوگا ؟
یہ بات سرے سے ہی غلط ہے۔ سبا تو یمن کے وسیع تر علاقے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ یاقوت (حموی) نے کہا ہے : سبا یمن کی سر زمین میں ہے۔ جس کا شہر مآرب ہے۔ اس کے اور صنعاء کے درمیان تین دن کا فاصلہ ہے۔تو یہ بات کسی طرح جائز نہیں ہے کہ ہر یمنی کو سبا کی طرف منسوب کیا جائے۔ اور اس کا عکس درست ہے۔
۳۔ رہا ان کا یہ کہنا کہ : ’’ بے شک عمار بن یاسر حضر ت علی ( رضی اللہ عنہما ) سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے اور ان کے لیے دعا کیا کرتے ؛ ان کی اتباع کی طرف دعوت دیتے ؛ اور لوگوں کو آپ بیعت پر ابھارتے۔ یہ بات تو صرف حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ سارے صحابہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کیا کرتے تھے۔ اور یہ سب لوگ
[1] تاریخ الطبری ۴/۳۴۰۔
[2] البدایۃ والنہایۃ ۷/۱۶۷۔
[3] الکامل فی التاریخ ۳/۷۷۔
[4] تاریخ ابن خلدون : ۲/۱۰۳۴۔