کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 98
ممانعت میں سختی اسی بنا پر ہے کہ جو قراءت میں تکلف زائد کی طرف چلا جائے ورنہ مطلق طور پر ترنم ولہجہ کی ممانعت نہیں کیونکہ جب قاری ترنم و خوبصورتی سے قرآن پڑھے گا تو لازمی ہے کہ وہ قانون نغم کی وضع کردہ چیزوں میں سے کسی نہ کسی کے مطابق ہی ہو گا وہ اس کا ارادہ کرے یا نہ کرے اور غالباً اگر وہ ارادہ سے ایسا کرے اور ماہر قراءت بھی ہو تو یہ حسنِ قراءت کو دوبالا کردے گا، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [1] دیکھیے یہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ہیں کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں اگر مجھے یہ علم ہوتا کہ آپ میری قراءت کو سن رہے ہیں ۔ تو میں اور عمدگی سے پڑھتا یعنی اس میں قدر زائد کوشش کرتا حالانکہ جب آپ نے ان کو سنا تو وہ کمال خوبصورتی سے پڑھ رہے تھے حتی کہ آپ نے ان کو مزامیر آل داؤد سے تشبیہ دی ، اگر وہ اس سے بھی زیادہ خوبصورت پڑھتے تو کیا عالم ہوتا؟ پس ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ تحسین اور قدر زائد کوشش حد شرعی ہے اس میں کسی قسم کا نزاع نہیں ہونا چاہیے۔ اور شاید اسلاف سے اس کی ممانعت میں جو شدت ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ ان کے زمانہ میں اس قدر اس میں لوگ آگے نکل گئے کہ بعض تو اس صورت حال تک جاپہنچے جو قرآن مجید کے شانِ شایان نہ تھی پس انھوں نے قرآن مجید کو سُر لگانے والوں اور پادریوں کے لہجوں میں پڑھا ان میں سے بعض نے نت نئے پیدا ہونے والے گانوں کے لہجوں میں پڑھا اسی پر ہیثم کی قرا ت ہے: ﴿ اَمَّا السَّفِیْنَۃُ فَکَانَتْ لِمَسَاکِیْنَ یَعْمَلُونَ فِی البَحْرِ﴾ (الکہف: 79) اس کو انھوں نے گانے کی طرز پہ یوں کھینچا: (اس شعر کے وزن پر) ’’ أما القطاۃ فإنی سوف اُنعتہا نعتًا یوافق نعتی بعض مافیہا‘‘[2]
[1] احیاء علوم الدین غزالی:(3/114). [2] المعارف ابن قیتبۃ:ص533.