کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 96
حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ۔یا پھر اس کے ترنم میں ایسا ہیجان اور ایسی مستی ہوتی ہے جو قرآن کے وقار و عظمت کے خلاف ہے یا پھر حدیث حذیفہ میں آنے والی ممانعات میں سے کسی کے مشابہہ ہوتا ہے ان کی مراد مطلق طور پر ترنم سے منع کرنا نہیں ہے ۔[1] اور اس کی دلیل امام احمد سے اختلاف کا نقل ہونا ہے حالانکہ وہ اس مسئلہ میں سختی سے منع کرنے والے ہیں اور اسی طرح امام شافعی سے منقول اختلاف ہے حالانکہ وہ اس کی اجازت میں وسعت سے کام لیتے ہیں ، پس یہ اختلاف گویا دوحالتوں کا اختلاف ہے نہ کہ دوقولوں کا جیسا کہ امام نووی نے اس اس کا اقرار کیا ہے۔ خلال نے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے امام احمد سے ترنم کے ساتھ قراءت کے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا محمد ، انھوں نے کہا کیا تجھے پسند ہے کہ تمہیں موحمد کہا جائے ؟ [2] ابو بکر مروزی سے روایت کیا جاتا ہے انھوں نے کہا میں نے عبدالرحمن متطیب کوکہتے ہوئے سنا میں نے ابو عبداللہ (امام احمد) سے ترنم کے ساتھ قراءت کا سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: اے ابو الفضل انہوں نے تو اسے نغمہ بنا دیا ہے ان سے مت سنو ۔[3] پس پہلی خبر ایسی قراءت بالترنم کی طرف اشارہ ہے جس سے شرط ادا مفقود ہو جاتی ہے ، انھوں نے کہا موحمد ، ایک حرف کا اضافہ کر دیا تو یہ بالاتفاق حرام ہے۔ اور دوسری خبر اس شخص کے بارے میں ہے جو فاسق شیطانی گلوکاروں کی طرح مستی سے پڑھے جو باطل اور لغو ہے
[1] یہ ناممکن ہے کہ قاری ترنم کے ساتھ پڑھے اور وہ قانونِ نغم میں سے کسی کے مطابق نہ ہو۔ اس کو اس بات کا شعور ہو یا نہ ہو، وہ قصداً ایسا کرے یا بغیر قصد کے ، مجھے لگتا یہ ہے کہ لوگ اس انکار میں آج کل بس ایسے ہی بطور عادت حکم لگاتے ہیں، ایک شخص کو میں نے سنا وہ الفاظ اذان کو حد سے زیادہ لمبا کرنے کی وجہ سے مسجد نبوی کے مؤذن کا انکار کر رہا تھا، جبکہ جامع کبیر ریاض کے مؤذن پہ اس کاعدم انکار کس قدر تعجب خیز ہے جبکہ وہ بھی اسی طرح ہی اذان پڑھتا ہے بلکہ میں نے شمار کیا تو لفظ جلالۃ (اللہ اکبر) کے الف کو تیس حرکت سے بھی زیادہ کھینچ دیا جبکہ یہ لا طبعی ہے اور قراء کا اجماع ہے کہ اس کو دو حرکتوں سے زیادہ نہیں کیا جا سکتا. [2] الامربالمعروف خلال:ص 177،169. [3] الامربالمعروف خلال:ص 177،169.