کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 95
اسی قول کو امام نووی اور حافظ ابن حجر نے راجح قرار دیا ہے اور اختیار کیا ہے ان کی کلام پہ غور فرمائیے وہ (التغنی) میں طویل کلام کے بعد مذاہب فقہاء کا خلاصہ لہجات اور ترنم میں اپنی ترجیح کے ساتھ یو ں پیش فرماتے ہیں: جو کچھ دلائل سے حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کو حسنِ صوت سے پڑھنا مطلوب ہے اور اگر خوبصورت آواز سے نہیں پڑھ سکتا تو اس کی قدر استطاعت کوشش کرے جیسا کہ راوی حدیث ابن اَبی ملیکہ فرماتے ہیں جو روایت ان سے ابوداؤد نے سند صحیح کے ساتھ روایت کی ہے۔ تحسین کی جملہ صفات میں سے ہے کہ قانونِ نغم کا خیال رکھے بیشک خوبصورت آواز اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے اور اگر اس سے باہر نکل جائے تو یہ اس کی تاثیر پہ اثر انداز ہونے والی چیز ہے اور اچھا نہ پڑھنے والے کو تو بعض دفعہ اس کی رعایت پہ مجبور کیا جائے گا جب تک وہ اصل قراء ات کی معتبر شرط کے مطابق الفاظ کی ادائیگی نہیں کرتا پس قوانین ترنم سے باہر جانیوالا قبیح ادائیگی کی وجہ سے حسنِ صوت کی شرط کو پورا نہیں کرتا اور شاید یہی وجہ ہے کہ بعض علماء غناکے ساتھ قرا ت کو پسند نہیں کرتے کیونکہ عمومی طور پر ترنم کی رعایت رکھنے والا ادا کی رعایت نہیں رکھتا۔ [1] پس اگر کوئی ایسا شخص ہو جو ان دونوں کا خیال رکھتا ہے تو اس کا دوسرے سے مختار ہونا لاشک ہے کیونکہ وہ مطلوب حسن صوت کو اختیار کرتا ہے اور ادا کی ممنوع کیفیات سے دور رہتا ہے۔ [2] واللہ اعلم [1]… ابو مجاہد کہتے ہیں: جو کچھ بعض سلف سے ثابت ہے وہ صحابہ کرام ہیں جیسے اَنس رضی اللہ عنہ یا ان کے بعد والے جیسے سعید بن مسیب اور ان کے ہم زمانہ یا بعد والے جیسے امام مالک اور امام احمد; اور ان کے ہم عصر جو ترنم کے ساتھ پڑھنے کو ناپسند جانتے ہیں ان کی اس بات کو اسی پہ محمول کیا جائے گا کہ ایسا کرنے والا شرط ادا کو ملحوظ نہیں رکھتا جیسا کہ حافظ ابن
[1] ادا اور قواعد تجوید کی شرط سے مراد حروف کو مخارج سے ادا کرنا، صفات کی تحقیق اور تمام احکام کو پورا کرنا ہے۔ (مختصر). [2] فتح الباری:9/72.