کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 94
ذریعہ معاش اور ذریعہ بود و باش بنا یا ہوا ہے، بہت سے میڈیا پہ آنیوالے قراء ایسے ہیں کہ ان میں سے بعض توبہت ہی تکلف و بناوٹ سے یوں پڑھتے ہے کہ اس کی رگیں پھول جاتی ہیں ، آنکھیں باہر کو آتی ہیں اور جسم کی نالیاں ظاہر ہو جاتی ہیں وہ شہوت کو پورا کرنے اور شہرت کو حاصل کرنے یا مال کے لالچ میں ایسا کرتا ہے ان کو پسند کرنے والے صرف آوازوں کے رسیا ہوتے ہیں وہ ان کے لمبے سانسوں کی تو بہت تعریف کرتے ہیں لیکن قرآن سے ایک آیت بھی سمجھ نہیں پاتے ۔ قرطبی کہتے ہیں: قاسم بن محمد کی مالک سے روایت ہے ان سے نماز میں ترنم کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: یہ مجھے پسند نہیں اور کہا یہ بس ایسا ترنم ہے کہ اس کو ادا کرنے والے اس کے ذریعے دراہم کماتے ہیں ۔[1] یہ قول جو ہم نے اختیار کیا ہے ہم اسی کو صحیح کہتے ہیں اور یہی قول دونوں طرفوں سے متوسط اور انصاف والا ہے۔ اس مسئلہ میں تشدد کرتے ہوئے اس کی قطعی اجازت نہ دینے والے[2] اور اس میں وسعت اور بغیر ضابط کے اجازت دینے والوں کے درمیان ہے اور اس قول کو ہم نے ایجاد نہیں کیا بلکہ ہم سے پہلے اس کے قائل بہت سے اہل علم ہیں جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ بعض فقہائے حنفیہ ، شافعیہ اور حنابلہ اس کی صرف اجازت ہی نہیں دیتے بلکہ اس کو مستحب کہتے ہیں ۔ [3]
[1] مقدمہ تفسیر:1/10. [2] سد ابواب کا یہ اسلوب ہمیں مفید نظر نہیں آتا ، لوگ تو یقینا (بدیل شرعی) کے بہت محتاج ہیں کہ جس کے ذریعے وہ مزامیر شیطان سے بچ جائیں جو کہ عام ہو رہے ہیں اور پھیل رہے ہیں، کیا یہ حکمت ہے کہ علماء اس پر فتن وقت میں اس منکر کے ازالہ سے توقف اختیار کر لیں جس نے بہت سے لوگوں کو فتنہ میں ڈال رکھا ہے ، اور اس شرعی باب کو بند کر دیں جس کی شارع حکیم نے اجازت دی ہے۔ اس مسئلہ میں ہماری شدت نے حفاظ طلباء کو ترنم کی عمدگی اور تغنی کی مہارت سے بہت دور کر دیا ہے کہ وہ اس کے ذریعے دلوں کو حرکت دیتے۔ الحان کو قراء پہ حرام کہنے کی وجہ سے آج منبر و محراب متقین اور ماہر قراء سے محرومی کا رونا رو رہے ہیں لہذا ایسے لوگ وہاں آگئے ہیں جن کی آوازوں میں سوز نہیں اور قرات میں اثر نہیں بلکہ تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض قواعد تجوید کو بدعت کہتے ہیں ۔ واللّٰه المستعان (بتصرف). [3] تقدم.