کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 93
قرات کے اعتبار سے وہ شخص سب سے اچھا ہے جو قرآن کو رقّتِ قلبی سے پڑھتا ہے ۔‘‘[1] ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک سورت پڑھی تو مردہ پہ رونے کے غمگین انداز میں پڑھی[2] تاہم ترتیل کرنے والے کو اس میں مبالغہ نہیں کرنا چاہیے تاکہ کہیں نوحہ کرنے والوں کی طرح نہ ہو جو منع ہے پس ایسے مقام کا ضبط ماہرین ہی کر پاتے ہیں جبکہ مبتدئین اس سے عاجز ہو تے ہیں۔[3] [4]… ترنم ولہجات سے اسی قدر مدد حاصل کرے جس قدر اس کی ضرورت ہے کہ جس سے آواز کی خوبصورتی اور قرآن کی زینت کا حصول ممکن ہو یا اس سے کچھ زائد کر لے جیسا کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا تاہم اس حد تک نہ نکل جائے کہ اس میں تکلف و دشواری پیدا ہو جائے جیسا کہ یہ معاملہ ایسے لوگوں میں مشہور ہو چکا ہے جنہوں نے اس کو
[1] الطبرانی (مجمع زوائد 7/170) اور فضائل قرآن ابن کثیر (ص55) اس کی سند میں ابن لہیعہ ہے. [2] حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں ۔ اس کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اسکی سند حسن ہے ۔ (9/70). [3] اس سلسلہ میں سب سے بہتر قراء ت جو حزن و تحسین صوت کا مظہر ہے منشاوی رحمہ اللہ کی قراء ت ہے اور اسی طرح شروط مذکورہ کے ساتھ ترنم کا لحاظ شیخ محمدرفعت رحمہ اللہ کی آواز میں بھی ہے ان کی قراء ت اور آواز کا عجیب ہی اثر ہے اور یہ شاید اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنے فن میں ماہر اور صدق و خشوع میں دل سے قرآن پڑھتے ہیں نہ کہ ان کی طرح جو قرآن کو یوں پڑھتے ہیں کہ ہنسلیوں سے تجاوز نہیں کرتا انہی ترتیل والوں میں محمود خلیل حصری ہیں جن کی قراء ت متعلّمین اور ابتدائی مجودین کے لیے بہت مفید ہے لیکن وہ ترنم کا زیادہ خیال نہیں کرتے ، انہی میں سے عبدالباسط عبدالصمد ہیں جو آواز میں بہت خوبصورت تا ہم لہجات میں قدرے متمکن نہیں اور ان میں سے لہجات کا تکلف اور اس قدر مبالغہ کہ بعض دفعہ شروط تجوید کا فقدان مصطفی اسماعیل کی تلاوت میں ہے اور ان میں برے ترین ابوالعنین شعیسع اور ان سے بھی بڑھ کر طبلاوی ہیں وہ تو قواعدوادا کی شروط کا ہی خیال نہیں کرتے بالخصوص لفظ ’’راء‘‘ میں اور ان کی قراء ت میں ایسی تطویل ہے جو مجمع علیہ حرام ہے۔ جو میں نے کسی کیسٹ میں سنی ہے ۔ انہیں میں سے(عنتر) نامی شخص ہے اس کو اللہ نے بڑی آواز دی ہے لیکن تجوید کے قواعد سے جاہل ہے اور قرآن مجید کے ساتھ کھیلنے کی اس میں بہت جرأت ہے۔ میں نے شیخ المقری سید علامہ شیخ عامر بن سید عثمان مدفون بقیع رحمہما اللہ سے سنا وہ فتوی دیتے تھے کہ اگر یہ توبہ نہ کرے تو واجب القتل ہے ۔ ان قراء کی مثالیں میں نے اس لیے دی ہیں کہ یہ نشریات میں مشہور ہیں اور لوگ ان کی تلاوتیں بہت سنتے ہیں.