کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 92
نوحہ کی طرف پھسلنے سے بھی بچے تاکہ ان نوحہ کرنیوالوں کے مشابہہ نہ ہوجائے جو اللہ کی تقدیر پہ ایمان نہیں رکھتے اور نہ ہی اس کے حکم پہ راضی ہوتے ہیں ۔ [3]… قراءت کے وقت ایسے لحن(ترنم ) کی طرف مائل ہو جس میں اندازافسردگی ہو کیونکہ یہی قرآن کے مقام کے مناسب ہے اور وہ ایسا لہجہ وترنم ہے جو خشوع و عبرت کی طرف بلائے اور خشیت و بکا کی طرف کھینچے اس لیے بعض سلف نے تغنی کا معنی افسردگی سے کیا ہے۔ [1] اس پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث دلیل ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بیشک قرآن رقّت و خشیت کے لیے نازل ہوا ہے جب تم اس کی قراءت کرو تو رؤو اگر رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کرو اور اس کو ترنم کے ساتھ پڑھو جو قرآن کو ترنم سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘[2] عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک یہ قرآ ن درمندی پہ نازل ہوا ہے اس کو اسی طرح پڑھو۔[3] عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں میں سے
[1] یہ تفسیر امام شافعی کی ہے جیسا کہ گزر چکا ہے (ص70) اور لیث بن سعد بن سعد نے اس کو ابوعوانہ سے روایت کیا ہے اور کہا (یتغنی بہ) اس کے ساتھ حزن ورقتِ قلبی کا سامان کرے۔ (فتح الباری: 9/70 ). [2] ابوداؤد:(2/74)، دارمی (2/338)، احمد (1/175) اور حاکم (1/569) نے اسکو ابن ابی ملیکہ کے طریق سے عن عبیداللہ بن أبی نھیک عن سعد بن اَبی وقاص روایت کیا ہے اور ابن ماجہ نے ابن ابی ملیکہ عن عبدالرحمان بن سائب عن سعد روایت کیا ہے (1/424) اور آجری نے (اخلاق حملۃ القرآن ) ص78 میں عن اسماعیل بن رافع عن ابن ملیکہ عن عبدالرحمن بن سائب روایت کیا ہے اور کہا: عن سعد بن مالک بدلاً من سعد بن أبی وقاص ۔ اور اسماعیل بن رافع، ابورافع مدنی ضعیف الحدیث ہے ، حدیث کے بہت سے طرق ہیں جو ضعف سے خالی نہیں، لیکن ایک دوسرے کو قوی کرتے ہیں ۔ اور اس پر کلام گزر چکی ہے. [3] طبرانی نے اُوسط میں (مجمع الزوائد: 7/169) اور ابونعیم نے الحلیۃ (6/196) میں اور آجری نے اخلاق حملۃالقرآن:ص78 میں ایک ہی سند اسماعیل بن سیف سے روایت کیا ہے اور وہ ضعیف ہے.