کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 89
صاحب ذخیرہ[1] نے حنفیہ سے نقل کیا ہے ۔ اسی کو ابولیلی[2] اور ابن عقیل[3] نے حنابلہ سے اختیار کیا ہے اور عبدالوہاب مالکی[4] نے امام مالک سے اس کی حرمت نقل کی ہے، اور اس کو ابوطیب طبری،[5] ماوردی اور ابن حمدان حنبلی[6] نے اہل علم کی ایک جماعت سے نقل کیا ہے۔ لہٰذاجس قول کو ہم نصوص اور اقوال سلف کی روشنی میں اختیار کریں گے وہ یہ ہے کہ لہجات اور ان کے قانون سے حسنِ صوت میں مدد لینا چار شرطوں کے ساتھ جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ [1]… صحتِ ادا میں حد سے زیادہ نہ بڑھے اور نہ ہی تجوید کے احکام کی سلامتی میں تجاوز کرے۔ پس جب ترنم احکام ِ ادا اور تجوید و قراءت کے قواعد میں خلل پیدا کرے تو اسے حرام قرار دیا جائے گا۔[7]
[1] محمود بن احمد بن عبدالعزیز بن عمر بن مازہ برہان الدین صاحب محیط برہانی اورذخیرہ اور دیگر مصنفات ، دیکھیے فوائد البھیۃ:ص 205 اور کشف الظنون:1/823. [2] محمد بن حسین ابو یعلی قاضی ت 458ھـ (طبقات حنابلہ ، رجب 1/142). [3] ابو الوفا علی بن عقیل بغدادی ت510ھـ (طبقات حنابلہ ، رجب 1/142). [4] عبدالوھاب بن نصر بغدادی قاضی ، ابو محمد مالکی ت 422ھـ (الدیباج المذھب 2/26). [5] طاہر بن عبداللہ بن طاہر بن عمر قاضی شافعی ت ۔ 450(طبقات شافعیہ کبری ، 5/12). [6] احمد بن حمدان بن شبیب نجم الدین ت 695 (المقصدالأرشد فی ذکر أصحاب الامام احمد ابن مفلح 1/99. [7] حافظ ابن حجر عسقلانی، فتح الباری: (9/72) میں علماء کا اختلاف ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ترنم کے ساتھ قرآن پڑھنے میں علماء کا اختلاف: اور یہ اختلاف اس وقت ہے جب ترنم سے مخارج حروف میں کوئی خلل پیدا نہ ہو، اگر تبدیلی واقع ہوتی ہے تو نووی (التبیان) میں لکھتے ہیں: اس کی حرمت پہ اجماع ہے ان کی عبارت یہ ہے(التبیان ص51): علماء رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قرا ت میں تحسین صوت اس وقت تک مستحب ہے جب تک حروف میں بڑھوتی اور زیادہ لمبا کھینچنے سے بچے اگر ایسا کرے تو حرام ہے سو ترنم کے ساتھ قرا ت کے متعلق امام شافعی ایک موقع پر فرماتے ہیں: میں اسے ناپسند کرتا ہوں اور دوسرے موقع پر فرماتے ہیں: میں اسے ناپسند نہیں کرتا، ہمارے اصحاب فرماتے ہیں: ان کی رائے دونوں قول پہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ اگر مد جواز میں تجاوز کر کے حروف کو زیادہ کھینچے تو حرام ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو جائز ہے۔ قاضی القضا ماوردی (کتاب الحاوی میں ) فرماتے ہیں: وضع شدہ تر نموں کے ساتھ اگر قرآن مجید کے الفاظ اپنے صیغہ سے نہیں نکلتے یعنی ان کی حرکات، مدود اور قصر و اخفا میں زیادتی سے التباس معنوی پیدا ہو تو حرام ہے ، قاری فاسق اور سننے والا گناہ گار شمار ہوگا کیونکہ یہ ، سیدھی راہ سے ہٹ جاتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ قرآناََ عربیاً غیرذی عوج‘‘ اگر قراء ت و ترتیل میں اس حد تک نہ پہنچے تو یہ مباح ہے کیونکہ یہ تحسین لحن و صوت ہے.