کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 82
ہمارا رب یاد دلاؤ تو وہ ان کو قرا ت سناتے۔ [1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سالم مولیٰ ابو حذیفہ کی بھی تعریف فرمائی اور وہ بھی قراء صحابہ میں سے تھے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایک رات عشا کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دیر سے آئی تو آپ نے فرمایا: ’’تم کہاں تھی ‘‘؟ میں نے کہاں: میں آپ کے صحابہ میں سے ایک شخص کی قراءت سن رہی تھی میں نے ان جیسی قرا ت کبھی کسی کی نہیں سنی ، فرماتی ہیں: پس آپ میرے پاس تشریف لائے اورکھڑے ہوکراور ان کی تلاوت سنی پھر فرمایا: ’’یہ سالم مولی ابو حذیفہ ہیں تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کی ہیں جس نے میری امت میں ان جیسے (قراء ) کو پیدا فرمایا‘‘[2] ھ:… نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فعلاً اس کا ثابت ہونا بھی ترنم و حسن صوت کی مشروعیت پہ دلیل ہے جیسا کہ جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ کی روایت اور برا بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت میں گزر چکا ہے ایسے ہی عبداللہ بن مغفّل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹنی پر قراءت کرتے ہوئے سنا جبکہ وہ چل رہی تھی آپ سورۃ فتح کی تلاوت فرما رہے تھے آپ کی بڑی شائستگی والی قراءت تھی اور آپ آواز کو حلق میں گھما رہے تھے۔[3] اور ایک روایت میں ہے ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے دن سورہ فتح کی تلاوت کرتے ہوئے سواری پہ سنا اور آپ آواز کو حلق میں گھما رہے تھے۔ راوی کہتے ہیں پھر معاویہ رضی اللہ عنہ [4] نے ابن مغفل کی قراءت کی نقل اتارتے ہوئے پڑھا اور کہا اگر مجھے لوگوں کے جمع ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو میں اس کو لوٹاتا جس طرح ابن مغفل نے
[1] فضائل القرآن ابن کثیر صفحہ:35. [2] ابن ماجہ:1/425، فضائل القرآن ابن کثیر:ص 35. [3] البخاری: فصائل القرأن باب الترجیع (فتح الباری: 9/92). [4] معاویہ بن قرہ عبداللہ بن مغفل سے روایت کرنے والے.