کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 77
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اپنی آوازوں سے قرآن کو خوبصورت بناؤ ‘‘[1] اور ایک روایت میں ہے ’’خوبصورت آواز قرآن کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہے۔‘‘[2] خوبصورت پڑھو۔ اس کو لکھو پس
[1] ابوداؤد:2/74، نسائی 2/179 ، ابن ماجہ:1/426 ، مستدرک حاکم:1/575۔ ان تمام نے طلحہ بن مصرف عن عبدالرحمن بن عوسجہ عن برا روایت کیا ہے۔ اس کو زاذان اور اوس نے بھی روایت ہے زاذان ابو عمر ضریر تابعین میں صدوق ہیں۔ کہا جاتا ہے انھوں نے جابیہ مقام پر عمر رضی اللہ عنہ کا خطبہ سنا۔ (تھذیب التھذیب 3/302). [2] یہ روایت زاذان اور اوس کی ہے اور یہ زیادتی بعض کے دعوی مقلوب کو ردّ کرتی ہے یہ ان کے اس قول کے قبیل سے ہے ’’ میں اوٹنی پہ حوض کے پاس آیا‘‘ (دیکھیے التذکا رقرطبی ص114) انہوں نے ان روایات کو مختلف الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے ’’ اپنی آوازوں کو قرآن کے ساتھ خوبصورت کرو‘‘ ( اپنی آوازوں کو قرآن کے ساتھ اچھا بناؤ) اگر یہ روایات صحیح ہوں تو ہم ان سے بھی وہی معنی لیں گے، جو حدیث میں ہے۔ ’’جو قرآن کو خوبصورت نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں‘‘ یعنی خوبصورت آواز اور قراء ت سے قرآن پڑھنا پس معنی ’’ اپنی آوازوں کو قرآن کے ساتھ خوبصورت بناؤ‘‘ کا یہ ہوگا کہ خوب صورت آواز اور قرآن دونوں زیور ہیں جو ایک دوسرے کو خوبصورتی سے آراستہ کرتے ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خوبصورت آواز قرآن کا زیور اور زینت ہے یعنی اس کی قرا ت کے لیے جیسا کہ جزری نے تجوید کی تعریف کرتے ہوئے مقدمہ میں کہا: وہ تلاوت کا یوں ہی زیور ہے ادا اور قرا ت کی زینت ہے۔ باقی رہی حدیث برا تو وہ صحیح ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے نسائی اور ابن ماجہ کے سند کے متعلق کہا: ھَذا اسناد جید۔ نسائی اور ابن حبان نے عبدالرحمن بن عوسجہ کو ثقہ قرار دیاہے۔ ازدی نے یحییٰ بن سعید قطان سے نقل کیاہے کہ انھوں نے کہا: میں نے ان کے بارہ میں مدینہ میں سوال کیا تو لوگوں نے ان کی تعریف نہیں کی۔ ابوعبید قاسم بن سلام کہتے ہیں: ہمیں یحییٰ بن سعید نے شعبہ سے بیان کیا انھوں نے کہا: مجھے ایوب نے اس بات سے منع کیا کہ میں ’’قرآن مجید کو آوازوں کے ساتھ خوبصورت کرو‘‘ حدیث لوگوں سے بیان کروں ابوعبید کہتے ہیں: انھوں نے اس لیے منع کیا کہ لوگ ناجائز ترنم کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت کا ڈھونگ رچائیں گے۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں: بیشک قتیبہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو اللہ تعالیٰ پہ توکل کرتے ہوئے بیان کیا جیسے ان سے روایت کیا گیا اگر باطل لوگوں کی تاویلات کے ڈر سے یوں ہی حدیث کو بیان کرنا ترک کردیا جائے تو پھر احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت سا ذخیرہ متروک ہوجائے ان لوگوں نے تو بلکہ قرآنی آیات کی باطل تاویلیں کیں اور اس کو غیر شرعی طریقے سے غیر محلہ محمول کیا تو کیا پھر اس ڈر سے قرآن کو بھی چھوڑ دیا جائے.