کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 75
سے پڑھے۔ اور اسی طرح مزنی[1] اور ربیع [2] نے امام شافعی سے نقل کیا ہے۔ ابن ابی حاتم نے اپنی سند کے ساتھ ربیع بن سلیمان سے نقل کیا ہے انھوں نے کہا: امام شافعی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ’’ لَیْسَ مِنَّامَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ‘‘ میں فرمایا:حدر کے ساتھ درد مندی سے اس کو پڑھے۔[3] اور طبری نے شافعی سے نقل کیا ہے کہ ان سے ابن عیینہ کی ’’ التغنی‘‘ کی تفسیر استغنا کے ساتھ کے بارہ میں پوچھا گیا تو وہ اس پہ راضی نہیں ہوئے اور فرمایا: اگر آپ کا ارادہ استغنا کا ہوتا تو آپ ’’ لم یستغن‘‘ کہتے ، آپ کا ارادہ خوبصورت آواز کا ہے۔ [4] ابو مجاہد کہتے ہیں: سیاق حدیث بھی ابن عیینہ کی تفسیر کو ردّ کرتا ہے کیونکہ یہ قرات کے ضمن میں آیا ہے اور اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن صوت کا وصف بیان فرمایا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کے سننے کا ذکر فرمایا ہے۔ اور بعض روایات میں اس کے بعد آواز کو بلند کرنے کا بھی ذکر ہے [5] تو ان تمام چیزوں کے پیش نظر ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی تفسیر کا کیا حال ہے؟ پھر اس حدیث مبارکہ میں قراءت کی خوبصورتی پہ مشقت کی بھی ترغیب ہے گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں: جو اپنی تلاوت میں استغنا طلب نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں تو اس معنی میں بھی تکلف اور تکلیف مالا یطاق ہے لہٰذا ہر ایک کے لیے قراءت میں غِناء کا حصول ممکن نہیں۔[6] اور یہ سب اس وقت ہے جب ابن عیینہ رحمہ اللہ کا مقصود وہ استغنا ہو جو فقر کے مقابلہ میں ہے جیسا کہ ابو عبید نے کہا۔ البتہ جب اس سے مراد استغنامعنوی ہو جیسے ابن راہویہ نے ان سے نقل کیا ہے یعنی سابقہ کتب سماویہ اور امتوں سے استغنا تو اس کی توجیہ ممکن ہے۔
[1] اسماعیل بن یحییٰ ابو ابراہیم صاحب شافعی (طقبات شافعیہ کبری:2/93). [2] ربیع بن سلیمان مرادی صاحب شافعی ان کی کتب کے راوی ہیں۔ (طقبات شافعیہ کبری: 2/132). [3] مناقب شافعی:ص157. [4] فتح الباری:9/71. [5] امام بخاری حدیث ابو سلمہ میں کہتے ہیں: ’’وقال صاحب لہ…‘‘ گویا کہ حدیث کی تفسیر کی طرف اشارہ ہے لیکن یہ صحیح مرفوع روایت میں ہے۔ مسلم نے اوزاعی کے طریق سے روایت کیا ہے۔ (صحیح مسلم: ص545). [6] فتح الباری بتصرف:9/70.