کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 74
ابو عبید کہتے ہیں: اس کلام کے مطابق معنی یہ ہوگا جو کثرت دنیا سے قرآن کے ساتھ مستغنی نہیں ہوتا وہ ہم میں سے نہیں یعنی ہمارے طریقہ پر نہیں ۔ [1] انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس قول سے بھی حجت پکڑی: جس نے سورۃ آل عمران پڑھی وہ غنی ہے۔[2] قلت: ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول فرمان نبوی سے ماخوذ ہے جو آپ نے اہل صفہ سے فرمایا، عقبہ بن عامر کہتے ہیں آپ نے فرمایا:’’ کون تم میں سے پسند کرتا ہے کہ ہردن کی صبح بطحان یا عقیق جائے اور بغیر کسی گناہ یا قطع رحمی کے دوغلہ سے بھری ہوئی اونٹنیاں لائے؟‘‘ ہم نے کہا ہم سب ہی پسند کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا:’’کیوں تم میں سے کوئی صبح کو مسجد نہیں جاتا کہ کتاب اللہ کی دو آیات سیکھ لے یہ دو اونٹنیوں سے کہیں بہترہے اور چار آیات چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور ان کی تعداد اونٹیوں کی تعداد سے بہتر ہے ‘‘[3] تاہم اگر ہم (التغنی) کا لغوی طور پہ یہی معنی تسلیم کرلیں تو کیا یہاں یہی معنی مراد ہوگا؟ حرملۃ بن یحییٰ[4] کہتے ہیں: میں نے ابن عیینہ سے یہی معنی سنا اس کے ساتھ مستغنی ہونا تو مجھے امام شافعی نے کہا: یہ مراد نہیں ہے اگر یہ مطلب ہوتا تو عبارت یوں ہوتی (یتغانی) یہ تو درمند ہونے اور ترنم کے ساتھ پڑھنے کے معنی میں ہے ۔ [5] حرملہ کہتے ہیں:میں نے ابن وہب سے[6] کہتے ہوئے سنا: اس کو ترنم (لب و لہجہ)
[1] فتح الباری میں اسی طرح ہے: (9/70) ، غریب الحدیث ابوعبید:2/169۔172. [2] ابو عبید نے فضائل القرآن (ق 49 النسخۃ المانیا) میں کہا: حدثنا عبدالرحمن عن سفیان عن أبی اسحاق عن سلیمان بن حنظلہ عن عبداللّٰه … فتح القدیر میں اس کو شعب الایمان بیہقی کی طرف منسوب کیا گیا ہے لیکن مجھے یہ روایت نہیں ملی. [3] مسلم: صلاۃ المسافرین ص 552. [4] ابو حفص تجیبی مصری صاحب شافعی ۔ ان کے حالات کے لیے دیکھئے: (تہذیب الکمال 5/548). [5] فضائل القرآن، ابن کثیر ان کی تفسیر کے آخر میں:ص 33. [6] عبداللہ بن وھب بن مسلم قرشی مولاھم ابو محمد مصری فقیہ (تھذیب التھذیب: 6/71).