کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 72
قراءت ان پر حسنِ صوت اور ترتیل کے ساتھ اثر انداز ہوئی اور آپ کے سلیقہ لغویہ سے جبیر نے جو کچھ سمجھا وہ کس قدر بامعنی تھا۔ برابن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عشا کی نماز میں ﴿وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ﴾ پڑھتے ہوئے سنا، پس میں نے آپ سے خوبصورت کسی کو کبھی نہیں سنا ۔ متفق علیہ [1] صحیحین میں ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو قرآن کوخوبصورت نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ، اورایک روایت میں باآواز بلند کے الفاظ ہیں۔[2] سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: (من لم یتغنّ)اس کا معنی ہے اس کے ساتھ مستغنی ہونا۔[3] وکیع کہتے ہیں: سابقہ امتوں کے حالات و واقعات سے مستغنی کرتا ہے۔ اسی طرح کا قول ابن راہویہ سے ابن عیینہ کے طریق سے ہے کہ اس سے مراد وہ استغنا نہیں جو فقر کی ضد ہے۔[4] یہی موقف امام بخاری رحمہ اللہ کاہے اور صحیح میں ان کے طریقہ سے یہی بات سمجھ آتی ہے۔ جہاں فرماتے ہیں ’’ باب من لم یتغنّ بالقرآن‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿أَوَلَمْ یَکْفِہِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ یُتْلَی عَلَیْہِمْ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَرَحْمَۃً وَذِکْرَی لِقَوْمٍ یُؤْمِنُون﴾ (العنکبوت: 51) ’’ کیا ان کے لیے کافی نہیں کہ ہم نے آپ پہ کتاب نازل کی جو ان پہ تلاوت کی جاتی ہے۔ ‘‘ یحییٰ بن جعدہ سے روایت ہے: مسلمانوں میں سے کچھ لوگ آئے جن کے پاس یہودیوں سے کچھ لکھا ہوا تھا جو انہوں نے ان سے سنا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں کی حماقت (بیوقوفی) اور گمراہی کے لیے یہی کافی ہے کہ جو ان کا نبی لائے اس سے بے رغبتی
[1] البخاری: الاذان 194 طبعہ حلبی، مسلم فی الصلاۃ. [2] فضائل القرآن میں امام بخاری نے اسی لفظ کیساتھ باب قائم کیا ہے (6/107) اور کتاب التوحید میں مسندروایت لائے ہیں۔ (8/209). [3] بخاری تعلیقاً:6/108 ۔ مناقب الشافعی ابن أبی حاتم: 106. [4] فتح الباری:9/68.