کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 68
افضل ہے اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافعل ہے اور چونکہ یہی مقصد تلاوت ہے فہم ، تدبر ، فقہ اور عمل ۔ شعبہ کہتے ہیں ہمیں ابو حمزہ[1] نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس سے کہا: میں جلدی قراءت کرنے والا انسا ن ہوں بعض دفعہ ایک ہی رات میں ایک یا دو مرتبہ قرآن ختم کر لیتا ہوں تو ابن عباس نے فرمایا: مجھے تیرے اس عمل سے ایک سورت پڑھنا زیادہ پسندیدہ ہے اگر تو نے ضروری ایسے کرنا ہی ہے تو کم ازکم ایسی تلاوت کر کہ تیرے کان اس کو سنیں اور تیرا دل اس کو یاد کرے۔[2] ابرہیم نخعی کہتے ہیں: علقمہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ پرپڑھا اور وہ بہت خوبصورت آواز کے مالک تھے ان سے ابن مسعود نے کہا: ترتیل کے ساتھ پڑھئیے آپ پہ میرے ماں باپ قربان ہوں بیشک یہ (ترتیل) قرآن کی زینت ہے۔ [3] عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: میرے پاس ایک عورت آئی اور میں سورہ ہود کی تلاوت کر رہا تھا اس نے کہا: اے ابو عبدالرحمن تم کیسے (تیزی سے)سورہ ہود پڑھ رہے ہو۔ مجھے اللہ کی قسم اسی سورت میں چھ ماہ ہوگئے میں اس کی قراءت سے فارغ نہیں ہوئی ۔ [4] محمدبن کعب قرظی رحمہ اللہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں اپنی پوری رات صبح تک ’’اِذَازُلْزِلَتِ الْارْضُ اور القَارِعَۃُ‘‘ پڑھتا رہوں ان دونوں سے تجاوز نہ کروں اور ان کو لوٹا لوٹا کر غور و فکر کرتا رہوں یہ مجھے جلدی جلدی قرآن پڑھنے سے کہیں بہترہے۔ [5] مجاہد سے دو شخصوں کے متعلق سوال ہوا کہ ان میں سے ایک سورہ بقرہ پڑھتا ہے اور دوسرا نماز میں بقرہ و آل عمران پڑھتا ہے اور دونوں کے رکوع و سجود ایک ہی طرح ہیں تو انھوں نے کہا جو صرف بقرہ پڑھتا ہے وہ افضل ہے۔ [6]
[1] نصر بن عمران ابوحجرۃ ضبعی بصری (تھذیب التھذیب:10/431). [2] زاد المعاد ابن قیم: 1/339. [3] مصنف ابن ابی شیبۂ:10/524 ، ابو نعیم (الحلیۃ: 2/99). [4] زاد المعاد:1/340. [5] ابن اَبی شیبہ (المصنف: 10/526، النثر:1/209). [6] ابن أبی شیبۃ:10/526.