کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 55
قرآن کی تعلیم پر اجرت لینا امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیشک جس چیز پر تم اجرت کے زیادہ حق دار ہو وہ اللہ کی کتاب ہے۔‘‘ [1] یہ حدیث تعلیم قرآن پہ اجرت کے جواز کی دلیل ہے اور شرط کے جواز پہ بھی ۔ اگرچہ حدیث کا سبب دم کرنا ہے مگر اس کا لفظ عام ہے اسی لیے جمہور اہل علم نے اس کے جواز کی دلیل پکڑی ہے۔ یہی قول عطا، حکم ، مالک ، شافع، احمد ، ابوثورکا ہے ، حسن ، ابن سیرین اور شعبی فرماتے ہیں: بغیر شرط کے مال لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اہل علم کی ایک جماعت کا خیال منع کا ہے اور یہ قول زہری ابوحنیفہ اور اسحاق[2] کا ہے۔ احناف کا استدلال یہ ہے کہ ہر وہ طاعت جو مسلمان کے ساتھ خاص ہے اس پہ اجرت
[1] امام بخاری نے اس روایت کو کتاب الاجارۃ اور کتاب الطب میں ذکر کیا ہے۔ ’باب الشروط فی الرقیۃ بفاتحۃ الکتاب‘ اور اس کے لفظ یہ ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ ایک قبیلہ والوں کے پاس سے گزرے جن میں کوئی زخمی یا ڈسا ہوا شخص تھا اہل قبیلہ میں سے کسی نے آکر پوچھا کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ پس صحابہ میں سے ایک شخص نے اسے جا کر سورہ فاتحہ کے ساتھ دم کیا (اوربکریوں کی شرط رکھی) تو وہ شفایاب ہو گیا پس وہ بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آئے تو انھوں نے نا پسند کیا اور کہا کہ تم نے کتاب اللہ پر اجرت کیوں طلب کی یہاں تک کہ وہ مدینہ آئے اور آپ کو اس بات کی اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی کتاب پہ اجرت کے تم زیادہ حق دار ہو۔ ابو داؤد نے اپنی سنن کے ’’کتاب البیوع باب کسب الا طباء‘‘ میں ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے اور اس کے آخر میں ہے۔:’’ تم نے کہا ں سے یہ دم سیکھا۔ تم نے اچھا کیا میرے لیے بھی ان بکریوں میں حصہ رکھو۔‘‘. [2] اسحاق بن راہویہ ۔ دیکھئے شرح السنۃ بغوی:8/286 المغنی ابن قدامۃ حنبلی: 8/136 طبع ترکی.