کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 53
تشریف لائے اور ان کا مؤذن مقرر کیا جو اذان دیتا اور ان کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو امامت کروائیں۔ عبدالرحمن بن خلادانصاری فرماتے ہیں۔ میں نے ان کے بوڑھے مؤذن کو دیکھا ہے۔[1] یہ حدیث عورتوں میں سے حفظ کرنے والی کی فضیلت پہ دلیل ہے جیسا کہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو عورت قرآن مجید کو حفظ کرے اور اس کی تجوید و قرأت میں مشغول ہو اس کے لیے مردوں کے سامنے اظہار جائز نہیں تاکہ وہ اس کی آواز نہ سن سکیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پہ غور کیجیے ’’اپنے گھر میں قرار پکڑو‘‘ اور ایک روایت میں ہے ’’ اپنے گھر میں بیٹھی رہو‘‘[2] یاد رہے قرار ِ بیوت کا یہ حکم عورتوں کے لیے عام ہے۔ جہاد کی اجازت لینے والی کے لیے خاص نہیں اور اس عموم کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ﴾ (الاحزاب: 33) ’’اپنے گھروں میں رہو۔‘‘ ایسے ہی اس حدیث کا عموم بھی اس پہ دلالت کرتا ہے ’’ عورت کی گھر کی نماز اس کی مسجد کی نماز سے افضل ہے۔ ‘‘ اور اس جیسی دوسری احادیث بھی ہیں پھر یہ بھی بات ہے کہ اس حدیث میں گھر والوں کی امامت سے اس کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ گھر کی چاردیواری سے باہر اسے امامت کی اجازت نہیں ہے۔
[1] سنن ٔ ابی داؤد:باب امامۃ النساء (1/230) اس کی سند میں ولید بن جمع ازہری ہے۔ اس میں اگرچہ کلام ہے ۔ تاہم مسلم نے ان سے روایت نقل کی ہے ۔ (مختصر سنن اَبی داؤد: 1/307). [2] ابن سکن نے اس کو ذکر کیا ہے دیکھے الاصابۃ:8/322۔امام سیوطی الاتقان:1/250) میں لکھتے ہیں صحابیات میں حفظ قرآن کی سعادت ان کوحاصل ہے لیکن ان کے بارہ میں کسی نے کچھ نہیں لکھا ۔ابن سعد رحمہ اللہ نے (الطبقات) میں ان کاقصہ نقل کیاہے۔میراخیال ہے شایدامام سیوطی رحمہ اللہ ابوداؤدکی روایت سے واقف نہ ہوسکے۔واللہ اعلم.