کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 51
عورت بھی قرآن مجید حفظ کرے قرآن کی قراءت کے متعلق وارد، تمام امور میں مرد و عورت مخاطب ہوتے ہیں اور ایسے ہی ہر وہ نص جو اس کے زبانی پڑھنے پہ ترغیب دیتی ہے اور اس کے تعلیم و تعلم پہ ابھارتی ہے اس میں عورتیں بھی داخل ہیں ، یہی وجہ ہے کہ صحابیات میں سے اس فضل ِعظیم کا بہت سی عورتوں نے اہتمام کیا اور ان میں سرفہرست امہات المومنین ہیں۔ ان کے اہتمام کی دلیل ان کا مصاحف کو مرتب کرنا ہے، جو شخص بھی کتب مصاحف اور تفاسیر کو پرکھے گا وہ اس میں مصاحف امہات المومنین کی عبارتیں پائے گا جن میں حضرت عائشہ، حفصہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہن قابل ذکر ہیں۔ تاہم عورتوں میں قاریات اس قدر مشہور نہیں جس قدر مردوں کا حال ہے۔[1] اور یہ اس کے عدم کی دلیل نہیں ہے کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ قرآن مجید کی حافظات اور اس کوجمع کرنے والی ہوں لیکن ان کاذکر نہ ہو کیونکہ عورتوں کا مسئلہ اصل پردہ سے تعلق رکھتا ہے وہ ظاہر نہیں ہوتیں اور ان کو گھروں میں رہنے کا حکم ہے۔ کیا عورت کو گھر میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں،اس کی گھر کی نماز مسجد کی نماز سے افضل ہے۔ پس قرأت ِ قرآن میں بھی کچھ اس طرح کا ہی معاملہ ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے ظاہر ہو اور ان کو اپنی آواز سنائے بلکہ وہ اپنے گھر میں ہی رہے اور اپنی
[1] حتی کی قراء کے حالات زندگی میں انہوں نے کسی عورت کاذکرنہیں کیااورنہ ہی اس کے لیے مستقل باب قائم کیاہے آ پ امام ذہبی کی (معرفۃ القراء الکبار) اورابن جوزی کی غایۃ النھایۃ فی طبقات القراء میں بھی اس بارے میں کچھ نہیں پائیں گے حالانکہ انہوں نے اس میں تقریباً(4000) چار ہزار قراء کے حالات نقل کیے ہیں.