کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 49
حرج نہیں ۔ [1] لیکن چھوٹے بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم کی ابتداکس سال سے ہونی چاہیے؟ مذکورہ حدیث اس بات پہ دلالت کرتی ہے کہ مستحسن ہے کہ دس سال کی عمر سے تجاوز کرنے سے پہلے مفصل حفظ کر چکا ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ ساتویں سال سے اپنی تعلیم کی ابتدا کرے کیونکہ مفصلات کے حفظ و تجوید میں تین سال سے زیادہ وقت نہیں لگتا ، اور میری رائے یہ ہے بچے کے عاقل اور باتمیز ہونے کے ساتھ ہی ہم اس کو قصار مفصل جیسے معوذ تین اور اخلاص مع سورۃ فاتحہ کی تعلیم دینا شروع کردیں اور یہ عمل اس کے لیے مفصلات کو حفظ کرنے کی ابتدا کامقدمہ ثابت ہوگا لیکن اس کو بعض معینہ آیات کی تعلیم دینے میں بھی کوئی حرج نہیں کیا سات سال کی عمر میں اسے نماز کا حکم نہیں اور تلاوت قرآن نماز کا رکن ہے۔ بلکہ ہماری اس بات کی دلیل بعض صحابہ سے بھی مروی ہے۔ ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں عمرو بن شعیب سے روایت کرتے ہیں: بنو عبدالمطلب سے جب کوئی بچہ سات سال کی عمر میں فصاحت سے بولنا شروع ہوجاتا تو آپ اس کو یہ آیات کریمہ سکھاتے ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ لَمْ یَتَّخِذْوَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی المُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکِبّرہٗ تَکْبِیْرًا۔)) [2] ’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو نہ اولاد رکھتا ہے نہ اپنی بادشاہت میں کسی کو شریک و ساجھی رکھتا ہے اور نہ وہ کمزور ہے کہ اسے کسی حمایتی کی ضرورت ہو اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا رہ۔‘‘ اور یوں ہی ابراہیم نحغی سے روایت ہے وہ اس بات کو ناپسند جانتے تھے کہ سمجھداری کی
[1] اس میں یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کی ترتیب الٹ ہوگئی ہے۔ یہ حدیث تعلیم قرآن میں اس کے جواز کی دلیل ہے بلکہ ترتیب یوں الٹ ہوتی ہے کہ الناس سے شروع کرے پھر الفلق پھر الاخلاص اور پھر المسد پڑ ھے یہ جائز نہیں ہے. [2] المصنف:10/556،عمل الیوم واللیلۃ ابن سنی:ص160.