کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 39
ہیں طلباء میں سے کون ابوالحسن کی طرح دس سال صبر کرے گا وہ تو اس سے کم پہ بھی صبر نہیں کرسکتے یعنی سبع کا طالب چودہ مرتبہ ختم کرے اور عشرہ کا طالب بیس مرتبہ ختم کرے۔
بعض مشایخ اپنے طلباء کو اس بات کا اہتمام کرواتے تھے جو سبعہ پڑھنا چاہتا ہے، وہ اکیس مرتبہ ختم کرے اور جو عشرہ پڑھنا چاہتا ہے، وہ تیس مرتبہ ختم کرے یعنی ہر راوی کی قرأت اور پھر ہر دو راوی کو ان کے شیخ کے ساتھ ایک ختم میں مکمل کرے۔
جمع قراء ات کے ساتھ قرآن کو نماز اور غیر نماز میں پڑھنے اوراخذ کرنے میں کوئی شرعی مانع نہیں ہے۔ قاری کے لیے جائز ہے کہ وہ خلوص نیت ،ارادے کی سلامتی اور فساد کا ڈر نہ ہونے کی صورت میں جمع کر لے [1] کیونکہ یہ چیز اس رخصت کے عموم میں داخل ہے۔ (فَاقْرَؤامِنہَامَاتَیَّسَر) جہاں سے آسان لگے اس کو پڑھو یعنی ان حروف منزلہ میں سے جو آسان لگے اس کو پڑھو اور یہ جمع بھی ایک آسانی ہے بلکہ آج تو یہ افراد سے زیادہ آسان ہے ۔ بلکہ تعلیم و تعلم کے وقت تو اس کی اشد ضرورت ہے۔ لہٰذا اسی کو اختیار کرنا اور اسی کی طرف رجوع کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اس کے انکار کرنے والے کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے کیونکہ آئمہ سے اس کو تلقی بالقبول حاصل ہے انہوں نے اس پر عمل بھی کیا ہے حتٰی کہ افراد کو راجح کہنے والے اور جمع کا انکار کرنے والے نے بھی اس پہ عمل کیا ہے جیسا کہ صفاقسی۔اور اس بات کی دلیل ان کا جمع کی کیفیت ، اس کے آداب اور اس میں قراء کے مذاہب کو بیان کرنا ہے،[2] البتہ بہتر یہی ہے کہ افراد یا جمع کا اختیار مقری کو قرا ت حاصل کرنے والے کی اہلیت و استعداد کے مطابق کرنا چاہیے۔
[1] ان شروط سے ہمارا قصد ان قراء کا خروج ہے جو عوام و جما ہیرکے سامنے نشریات پر جمع کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں اور ان سے داد وصول کرتے ہوئے ان کے جذبات پر حملہ کرتے ہیں پس ایسے قراء اور سامعین سے فرمان نبوی کے مطابق ’’ ان کے دل اور ان سے متاثرین کے دل فتنہ میں ہیں۔ ‘‘ کا ڈر ہے۔ پس جہالت کی بنا پہ ایسے افراد سے جمع قراء ات کے انکار کا ڈر ہوتا ہے ، جو کہ ایک مفسدت ہے جس سے بچنا ضروری ہے (مختصر).
[2] اصول ان قراء ات کوکہتے ہیں جواصل کے تحت داخل ہوتی ہیں اورفروش سے مراد وہ قراء ات جوایک اصل کے تحت نہیں ہوتیں.