کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 38
خوبصورت و درست لکھنا اور اسانیدو طرق کو پاک صاف کرنا۔ ان طرق واسانیدکی کثرت ہی مجبوری ہے ورنہ متقدمین کے حوصلے اور ہمتیں بہت بلند تھیں ان کے ہاں جمع کا تصور بھی نہیں وہ تو قراء اتِ افراد کے حصول میں لپکتے تھے تا کہ اتقان اور تمام روایات کا استیصاب (اکمال) ہو سکے حتی کہ استاد ابوالحسن علی بن عبدالغنی مصری قیروانی[1] نے اپنے شیخ ابوبکر قصری [2] سے قراء ات سبعہ نوے مرتبہ قرآن ختم کر کے پڑھیں۔ ہر مرتبہ دوسری قرا ت میں ختم فرماتے اور یہ عمل دس سال کے عرصہ پر محیط ہے اس کی طرف اپنے قصیدہ میں اشارہ فرماتے ہیں: [3] قراء ات کے مشایخ کا میں کرتا ہوں ذکر ابتدا میں ہیں ان کے امام ابوبکر پڑھی ان پہ قرات سبعہ نوے بار میں بارہ سال کی عمر میں مکمل کی دس سال میں افرادِ قرات اَخذ کا طریقہ پانچویں صدی تک جاری رہا جو کہ دانی ، اہوازی اور ہذلی کا زمانہ ہے یہاں تک کہ ایک ہی ختم میں جمع قرا ء ات کا ظہور ہوا جو آج تک جاری ہے۔[4] حافظ ابن جزری فرماتے ہیں: بعض آئمہ اس طریقہ کا ناپسند جانتے تھے کیونکہ یہ سلف کا طریقہ نہیں لیکن اب اسی پہ عمل ہے اور ا س کو اقراراور تلقی بالقبول حاصل ہے۔[5] میں تو یہ کہتاہوں کہ آج کے زمانہ میں اس کی اشد ضرورت ہے ہمتیں کم اور عزائم کمزور
[1] ابواسحاق ابراہیم مصری کے خالہ زاد ہیں جو زھرالآداب کے مصنف ہیں اور ابوالحسن قراء ت کے ماہر استاد ہیں طنجہ مقام پر 468ھ میں فوت ہوئے۔ (غایۃ النہایۃ:1/550 ،ترجمہ 2249). [2] جامع قیردان کے امام ہیں۔ابن جزری نے ان کا ذکر کیا ہے لیکن ان کے حالات نہیں لکھے۔ (غایۃ النھایۃ:1/185). [3] النشر:2/194 اورلطائف الارشادات:1/335. [4] ایضاً. [5] النشر:2/195۔ غیث النفع صفاقسی (علی ھامش سراج انصاری) ص10.