کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 37
ثابت ہے۔ [1] پھر صحیح احادیث سے بعض ایسے واقعات کا رونما ہونا بھی ثابت ہے جہاں صحابہ کرام سے مختلف قراء ات قرآنیہ کا پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سورۃ فرقان کی ہشام بن حکیم بن حزام سے مختلف قراء ات نقل کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سورۃ فرقان کی تلاوت ان حروف پہ کر رہے تھے جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھائے ۔ [2] اور ایسے ہی ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت کا حال بیان کرتے ہیں۔ ان کانام صحیح حدیث میں ذکر نہیں کرتے ’’ ایک شخص داخل ہوا اس نے نماز پڑھائی اور ایسی قراءت کی کہ جس کو میں نہیں جانتا تھا‘‘[3] ابن جریر نے ان کا نام ذکر کیا ہے۔ [4] میں یہ کہوں گا کہ اگرچہ ان صریح روایات میں اس بات کا ذکر نہیں کہ وہ مختلف قراء ات کو جمع کرتے تھے تا ہم اس سے کوئی چیز مانع بھی نہیں۔ [5] لیکن مختلف حروف کو ایک آیت کریمہ میں جمع کرنے میں صحابہ کا معاملہ جمع کی حد تک ہے۔ اسانید و طرق سے صرف ِ نظر کیوں کہ اسانید و طرق کا وجود صحابہ کے بعد ہے۔ جب طرق واسانید کا سلسلہ چل نکلا تو پھر جمع ایک اور معنی کے لیے استعمال ہونے لگا، روایات کو
[1] حتی کہ آخری دور سے بھی یہ استدلال کیا جاتا ہے کیوں کہ موضع اختلاف بعض دفعہ دو سے زائد وجہوں پہ ہوتا ہے تو یہ ناممکن ہے کہ آپ نے انفرادی طور پر ہر قراء ات کو لوٹا یا ہو۔ اب جو شخص اس استدلال کو تسلیم نہیں کرتا وہ دو چیزوں کو مستلزم ہے یا تو وہ اقرار کرے کہ یہ مختلف قراء ات آپ کے آخری دور میں شامل تھیں تو پھر بتائے کہ آپ نے ان کو کیسے پڑھا ، یاپھر یہ کہے کہ داخل نہیں تھیں تو یہ قول اس بات کو لازم ہے کہ قرآن کا بعض حصہ اس سے سا قط ہو گیا تھا جب کہ صحابہ کے مصاحف پہ قراء ات لکھی ہوئی تھیں اور اس کی سب سے واضح دلیل یہ ہے کہ حضر ت عثمان کے مصاحف پہ یہ ثابت ہیں جو عرضہ اخیرہ یعنی آخری دور کے موافق لکھے گئے ہیں. [2] بخاری فتح الباری:9/23. [3] مسلم:1/561. [4] ابن جریر مقدمہ:1/42. [5] سورۃ فرقان میں بہت سی قراء ات ہیں بعض جگہوں میں دو بلکہ پانچ تک قراء ات ہیں ۔ حافظ ابن حجر نے ان کو جمع کیا ہے۔ (فتح 9/33).