کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 34
لہٰذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ کسی صحابی کو اس کی لغت اور لہجہ سے ہٹ کر دوسرے حرف پہ قرآن سکھاتے جو دوسرے صحابی کو نہ سکھایا ہوتا ۔ [1] اس جیسا ہی مسئلہ شروع شروع میں ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان بھی پیش آیا۔ أبی رضی اللہ عنہ نے ابن مسعود کو وہ قرا ت کرتے ہوئے سنا جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سیکھی تھی۔ [2] تاہم تمام صحابہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ حفظِ قرا ت میں سبقت لے گئے۔ یہاں تک کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: أبی رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے بڑے قاری ہیں لیکن جہاں ان سے تقصیرسرزدہوتی ہے وہاں ہم ان کو چھوڑ دیتے ہیں، أبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنا میں اسے چھوڑنے والا نہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿مَا نَنسَخْ مِنْ آیَۃٍ أَوْ نُنسِہَا نَأْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا أَوْ مِثْلِہَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّٰہَ عَلَیَ کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیْرٌ﴾ (البقرۃ: 106) ’’ جس آیت کو ہم منسوخ کر دیں یا بھلادیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور لاتے ہیں۔‘‘[3] سیدناعمر رضی اللہ عنہ کا مقصد اس سے یہ ہے کہ أبی رضی اللہ عنہ ان حروف کو چھوڑنے والے نہیں جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھے ، وہ ان کے نسخ کو تسلیم نہیں کرتے جبکہ عمر رضی اللہ عنہ اس مسئلہ میں
[1] اسی طریقہ کو قراء نے اختیار کیا پس نافع بن ابونعیم مدنی نے ورش کے لیے جو مخصوص کیا وہ حفص نے نہ پڑھا تھا۔ اور حفص نے عاصم سے جوپڑھاوہ شعبہ نے نہ پڑھا جب انہوں نے اختلاف کیا تو عاصم نے حفص سے کہا ، میں نے تجھے وہ پڑھایا جو مجھے ابوعبدالرحمن سلمی نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پڑھایا ، اور ابوبکر (شعبہ) کو میں نے وہ پڑھایا جو مجھے زر بن حبیش نے عبداللہ بن مسعود سے پڑھایا۔ (معرفۃ القراء الکبارللذھبی92/1). [2] صحیح مسلم:کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضائل القرآن ۔ 1/561 ۔ ابن جریر فی مقدمہ التفسیر:1/42. [3] البخاری فضائل القرآن ۔ فتح الباری 9/47.