کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 33
مطابق پڑھاتے تھے۔ یا جو اس کے لہجہ کے قریب ہوتا۔ کیونکہ اصل عرب کے لیے اپنے لب و لہجہ سے دوسرے میں منتقل ہونا اس قدر گراں اور مشکل تھا جس طرح پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانا مشکل ہے بلکہ شاید پہاڑ کا منتقل کرنا اس قدر مشقت کا باعث نہ ہو ۔ جیسا کہ ابن قتیبہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔ [1] یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ نازل شدہ حروف مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سینوں میں محفوظ تھے اور بعض دفعہ ان کے مصاحف میں لکھے ہوئے بھی تھے۔ تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ میں سے اہل فقہ اور اہل علم و فضل کے اعتبار سے کبار صحابہ کا انتخاب فرماتے جو کہ بعد میں لوگوں کو ایک سے زائد حرف پہ قرآن پڑھانے میں امامت کے درجہ پہ فائز ہوئے ان کو آپ ایک سے زائد حرف پہ قرآن پڑھاتے تاہم بعض کو تمام حروف پڑھانے کے لیے خاص فرمایا انہیں صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے قرآن کو جمع کیا ہے ، یعنی تمام منزلہ حروف کو حفظ کیا ہے۔[2] جیسے ابی بن کعب ، زید بن ثابت ، خلفائے اربعہ، معاذ بن جبل ، عبداللہ بن مسعود ، سالم مولی ابی حذیفہ ابوالدرداء اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم وغیرھم ۔ اور کبھی کبھار آپ نے بعض صحابہ کووہ حروف سکھائے جو دوسروں کو نہ سکھائے جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورۃ فرقان کی تلاوت ان حروف پہ کرتے ہوئے سنا جو انہوں نے نہ سیکھے تھے پس قریب تھا کہ وہ انہیں نماز میں ہی پکڑ لیتے… الخ ۔دونوں نے باوجود قریشی ہونے کے اختلاف کیا ۔
[1] تأویل مشکل القرآن: ص30. [2] اسی سے انس رضی اللہ عنہ کی بات سمجھ آتی ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کس نے قرآن جمع کیا ہے تو انہوں نے فرمایا: چار اشخاص نے اور وہ سب انصار ہیں: ۱ٔبی بن کعب ، معاذبن جبل ، زید ، ابوزید ، ان کا یہ قول بھی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو سوائے چار لوگوں کے کسی نے قرآن کو جمع نہیں کیا اور ابی بن کعب کی جگہ ابودرداء کا نام ذکر کیا ، تو اس سے مراد یہی ہے کہ انہوں نے تمام نازل شدہ حروف کو حفظ کیا۔ (المرشد الوجیز ص 39) (مختصر)