کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 32
قرآن مجید کی مختلف قراء ات کو سیکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کو سات حروف[1] کے ساتھ پڑھایعنی سات پڑھی جانے والی قرآء ات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی امت پر رخصت و وسعت کے طور پر قبول کیا اور یہ قرآن مجید کے اعجاز کا ایک پہلو بھی ہے۔ یہ قرآء ات جس طرح الفا ظ اور طریقہء ادا میں مختلف ہیں ایسے ہی اپنے معانی میں بھی مختلف ہیں۔ ان قرآء ات کا نزول فتح مکہ کے بعد ہوا جب عرب کے قبائل مختلف زبانوں اور لہجوں کے ساتھ دین میں فوج درفوج داخل ہوئے۔ اس سے قبل قرآن مجید ایک حرف پہ تھا جو کہ لغت قریش اور ان کے لہجہ کے مطابق تھا۔ حتی کہ حروف سبعہ کے نزول کے بعد بھی قرآن مجید کا اکثر اور معظم حصہ ایک وجہ پہ ہی رہا اس کو قراء کی زبان میں (مواضع الاتفاق) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کا بعض حصہ ایک، دو سے سات حروف تک میں نازل ہوا اور اس کا نام (مواضع الاختلاف) رکھا گیا ہے۔ [2] یہ مقامات اکثرو بیشتر لغات عرب اور ان کے فصیح لہجات کے مطابق ہیں البتہ قرآن مجید کا معظم حصہ قریش کی لغت اور ان کے لہجہ کے مطابق ہے۔ چونکہ یہ حروف قرآن مجید کے ان پڑھنے والے قراء کی آسانی کے لیے تھے جو خود مختلف لغات اور لہجوں کے حامل تھے، لہٰذانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر عربی دان کو اس کے نازل شدہ لہجہ کے
[1] حرف لغوی طور پر وجہ کو کہتے ہیں جو قراء ۃ کے معنی میں ہے۔ صحابہ کرام اس اصطلاح کو قراء ۃ کے مرادف ہی استعمال کرتے تھے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔’’ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام کو سورۃ فرقان پڑھتے ہوئے سنا وہ اس کو حروف کثیرہ پرپڑھ رہے تھے‘‘ یعنی قراء ت کثیرۃ پر۔ وہ کہتے تھے حرف زید، حرف أبی، حرف ابن مسعود رضی اللہ عنہم ، ان سب سے مراد ان حضرات کی قرء ات تھیں جو وہ روایت کرتے تھے پس قراء ات کی ان کی طرف نسبت حدیث کی اس کے راوی کی طرف نسبت کی طرح ہے. [2] یہی علم قرا ء ات کا موضوع ہے.