کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 30
ہم دس آیات سے تجاوز نہ کرتے تھے جب تک ان آیات کے مسائل سے آگاہی نہ ہو جاتی ۔ پس ہم قرآن اور اس پر عمل بیک وقت سیکھتے اس قرآن کے وارث ہمارے بعد ایسے افراد ہوں گے جو اس کو پانی کی طرح پیئیں گے لیکن یہ ان کی ہنسیلوں سے تجاوز نہ کرے گا بلکہ انہوں نے گلے پہ ہاتھ رکھ کر فرمایا یہاں سے تجاوز نہ کرے گا۔ امام حاکم نے اپنی مستدرک میں ، ابو عبدالرحمن سلمی رحمہ اللہ [1] کی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت تک اگلی دس آیات نہ سیکھتے جب تک پہلی دس آیات کے احکام نہ سیکھ لیتے۔ [2] پس یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآنی تعلیم و تعلم میں منہج ہے کہ متعلّم علم و عمل دونوں کو حاصل کرے اس لیے انہوں نے مکمل قرآن مجید حفظ نہیں کیا جب تک اس کے علم و عمل سے واقف نہیں ہوئے بلکہ وہ قرآن کا تھوڑا تھوڑا حصہ یاد کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ بعض صحابہ کو مکمل قرآن یاد کرنے میں کافی عرصہ لگا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی موطا میں روایت نقل کی ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے سورہ بقرہ آٹھ سال میں سیکھی جب اس کو مکمل کیا تو ایک اونٹ ذبح کیا۔[3] پس اس سے یہ بات بھی ہمارے لیے واضح ہوتی ہے کہ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی وقت میں بہت کم صحابہ نے قرآن کو جمع کیا اور بہت کم نے اس کے بقیہ تمام حروف یعنی ’قراء ات منزّلۃ کو جمع کیا بلکہ یہ ان کے سینوں میں محفوظ تھیں ۔ بہت شاذونادر ہے کہ کسی نے تمام
[1] ان کا نام عبداللہ بن حبیب ہے۔ دانی کہتے ہیں انہوں نے عثمان ، علی ، ابن مسعود، زید بن ثابت اور ابی بن کعبرضی اللہ عنہم سے عرضًا قرأۃ حاصل کی اور ان سے عاصم بن ابی نجود، یحییٰ بن مرتاب ، عطاء بن سائب ، شعبی اور اسماعیل بن خالد وغیرہ نے پڑھا حسن و حسین رضی اللہ عنہما نے بھی آپ کو سنایا 74ھ میں فوت ہوئے ( مشاہیرِ علما ء الامصار ص102،معرفۃ القراء الکبار 1/52۔ ابو عبدالرحمن سلمی نے خود اسی طرح قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ (مختصرالطبقات: 6/172). [2] المستدرک:1 / 557. [3] الموطا:1/205.