کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 26
جیسا کہ قراء حضرات کا معمول ہے وہ ایک دوسرے کو ایک ایک پارہ سناتے ہیں تو لفظ (مدارسۃ) لایا گیا ہے یا پھر ممکن ہے کہ وہ دونوں قرآن مجید کو اکٹھا پڑھتے ہوں کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ باب مفاعلہ میں دو کی شراکت ہوتی ہے۔ [1]
قلتُ:… یہاں صحیح بخاری کے الفاظ میں (فیدارسہ) ہے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بخاری شریف کے فضائل القرآن میں روایت ہے آپ نے فرمایا:’’ جبریل علیہ السلام ہر سال مجھے ایک مرتبہ قرآن سناتے تھے اس سال مجھے دو مرتبہ قرآن سنایا ہے ‘‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام قرآن سناتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنتے تھے پھر آپ سناتے اور جبریل علیہ السلام سنتے اس بات پر ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی بخاری میں فضائل القرآن کی روایت ہے ’’جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر سال ایک مرتبہ قرآن سناتے تھے جس سال آپ رخصت ہوئے اس سال دو مرتبہ سنایا۔
فضائل قرآن میں ایسے ہی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت بخاری میں ہے: ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھلائی کے کاموں میں بہت زیادہ سخی تھے اور سب سے زیادہ سخاوت آپ رمضان میں فرماتے کیونکہ جبریل رمضان کی ہر رات آپ سے ملاقات کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبریل علیہ السلام کو قرآن سناتے اور آپ تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوتے۔[2]
خلاصہ یہ ہوا کہ قرآن مجید کے حصول میں یہی طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے جو قراء کرام کا معمول اور طریقہ ٹھہرا جس کو عرض و سماع کا نام دیا جاتا ہے۔
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل سے مشافھتاً قرآن مجید پڑھا۔ پہلے آپ نے جبریل سے سنا جیسا کہ سورہ قیامہ کی آیات دلالت کرتی ہیں اور مذکورہ بعض روایات بھی اور پھر آپ نے جبریل علیہ السلام کو سنایا جیسا کہ احادیث کا بقیہ حصہ دلالت کرتا ہے۔
[1] عمدۃ القاری: 1/57.
[2] مسلم مع النووی: 10/68.