کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 25
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول پر امام کرمانی تعلیقاً فرماتے ہیں (وقرآنہ) یعنی آپ کو اس کا پڑھانا یہاں قرآن سے مراد قرا ت ہے نہ کہ کتاب جو بطور اعجاز محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی یعنی یہ مصدر ہے نہ کہ کتاب کا نام۔[1]
قلتُ:… ان آیات میں تین باتیں ہیں۔
(1) قرآن مجید کی نص کو حفظ کرنا اور اس پر یہ فرمان ہے ﴿ اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ﴾ یعنی آ پ کے سینے میں اس کو جمع کرنا تا کہ آپ اس کی نص کو حفظ کر سکیں ۔
(2) قراءت، اس کی کیفیت اور ادائیگی کا طریقہ اور اس کی طرف اشارہ اس فرمان میں ہے (وقرآنہ) یعنی اس کی قرا ت کا سکھانا بھی ہم پہ ہے۔ پس’’ القرآن‘‘ یہاں مصدر ہے جو کہ قراءت کے معنی میں ہے عَلَم نہیں۔
(3) قرآن مجید کے علم و عمل کی معرفت ۔ اس کی طرف اشارہ اس فرمان میں ہے: ﴿ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ﴾یعنی اس کے حلال و حرام کی تعلیم دینا بھی ہم پر اس طرح ہے جیسا اس کی قراءت کا سکھانا ۔
امام بخاری و مسلم رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ذکر کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سے سب سے زیادہ سخی تھے اور جب آپ رمضان میں جبریل علیہ السلام سے ملاقات کرتے تو سب سے زیادہ سخاوت فرماتے، ہر رات رمضان میں جبریل علیہ السلام سے دور کرتے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔ یہ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں۔ [2]
امام عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (فیدا رسہ) المدارسۃ سے باب مفاعلہ ہے جو کہ دَرَسَ سے ہے اور وہ جلدی قرأت کرنے کے معنی میں ہے۔ ابن کثیر اور ابو عمرو کی قرأت ہے ’’وَلِیَقُولُواَدارَسْتَ‘‘ یعنی آپ یہودیوں پہ پڑھتے ہیں اور وہ آپ پہ پڑھتے ہیں پس چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبریل علیہ السلام کو اور وہ آپ کو سناتے تھے ۔
[1] شرح کرمانی علی البخاری:1/47.
[2] فتح الباری:1/30.