کتاب: تلاوت قرآن میں قراء کرام کے اسالیب - صفحہ 24
﴿فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ﴾ غور سے سنیے اور خاموش رہیے۔ ﴿ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ﴾ پھر ہماری ذمہ داری ہے کہ آپ اس کو پڑھیں پس اس کے بعد جب جبریل علیہ السلام تشریف لاتے آپ غور سے سنتے جب وہ چلے جاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ایسا ہی پڑھ لیتے جیسا جبریل علیہ السلام آپ کو پڑھاتے۔[1]
تویہاں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے (بیانہ) کی تفسیر تجوید کے ساتھ پڑھنے کے ساتھ کی ہے اور یہ بات گزر چکی ہے کہ قرأۃ لغت میں اصلاً اظہار و بیان کے معنی میں ہے۔ ان سے اس کے علاوہ بھی تفسیر منقول ہے جیسا کہ ابن جریر نے ان سے فرمایا ﴿ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ﴾حلال و حرام کی وضاحت کرنا ۔ یہی تفسیر عطیہ عوفی اور قتادہ سے مروی ہے۔ [2]
پس ابتدائی زمانہ میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سکھایا جاتا تو آپ جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرا ت کرنے میں گویا تنازع کامعاملہ فرماتے اور اس کو پورا کیے بغیر نہیں رکتے تھے اور یہ سب کچھ جلدی حفظ کرنے کی غرض سے ہوتا تا کہ وحی سے کوئی چیز رہ نہ جائے جیسا کہ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔ تواللہ تعالیٰ نے یہ آیات اور سورہ طہ کی آیت کریمہ نازل فرمائی:
﴿وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن یُقْضَی إِلَیْکَ وَحْیُہُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا﴾ (طٰہٰ: 114)
’’ وحی مکمل ہونے سے پہلے آپ اس قرآن کے ساتھ جلدی کا معاملہ نہ کیجیے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے ، اے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے سورہ قیامہ کی ان آیات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید حاصل کرنے کا طریقہ اور اس کو سیکھنے کا ادب سکھایا کہ آپ صبر سے بالغور سنیں اور جبریل علیہ السلام کی قرا ت ختم ہونے تک خاموش رہیں۔ اس وقت مراد صرف حفظ کرنا نہیں بلکہ قراءت کے حصول اوراس کی صفت واداکی کیفیت کو سیکھنا بھی ہے۔
[1] البخاری: بتصرف فتح الباری ۔ 1/29.
[2] تفسیر ابن جریر: 29/117طبع بولاق 1329ھ.